صدر جو بائیڈن
واشنگٹن: غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے امریکہ میں مسلم کمیونٹی کے لیڈران نے صدر جو بائیڈن کی طرف سے منعقد ہونے والی افطار کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہے۔ اس کے بعد وائٹ ہاؤس نے منگل کی شام ایک چھوٹی افطار دعوت کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں صرف انتظامیہ میں کام کرنے والے لوگ ہی شرکت کریں گے۔
گزشتہ سال دعوت میں شامل ہوئے تھے وائل
مسلم ایڈوکیسی گروپ ایمگاز کی قیادت کرنے والے وائل الزیات نے گزشتہ سال وائٹ ہاؤس میں منعقدہ افطار کی دعوت میں شرکت کی تھی، لیکن اس بار انہوں نے جو بائیڈن کے ساتھ افطار کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا، “جب غزہ میں فاقہ کشی کی صورتحال ہو تو اس طرح سے دعوت میں شرکت کرنا نامناسب ہے۔”
بائیڈن سے ناراض ہیں کئی امریکی مسلمان
انہوں نے کہا کہ کئی لوگوں کی جانب سے دعوت نامے کو ٹھکرا نے کے بعد وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز اپنا منصوبہ تبدیل کر دیا اور کمیونٹی لیڈران کو کہا کہ وہ انتظامیہ کی پالیسیوں پر مرکوز ایک میٹنگ کرنا چاہتے ہیں۔ الزیات نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ غزہ کے محاصرے پر اسرائیل کی حمایت کرنے پر کئی امریکی مسلمان بائیڈن سے ناراض ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کو خدشہ
صدر کی ڈیموکریٹک پارٹی کو خدشہ ہے کہ بائیڈن کے لیے مسلمانوں کی کم ہوتی حمایت ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ صدر جو بائیڈن، نائب صدر کملا ہیرس، سرکاری مسلم حکام، قومی سلامتی کے اہلکار اور کئی مسلم لیڈر منگل کے روز ہونے والی افطار کی دعوت میں شرکت کر سکتے ہیں۔ حالانکہ، وائٹ ہاؤس نے ان کے نام ظاہر نہیں کیے ہیں۔ کچھ لوگ جنہیں پچھلے سالوں میں ہونے والی تقریبات میں مدعو کیا گیا تھا اس بار انہیں مدعو نہیں کیا گیا، جن میں ڈیئربورن، مشی گن کے میئر عبداللہ حمود بھی شامل ہیں۔
پریس سکریٹری نے کیا کہا؟
پریس سکریٹری کیرن جیاں پیئرے نے کہا کہ “کمیونٹی لیڈران نے ورکنگ گروپ کی میٹنگ کرنے کے لیے کہا تھا”۔ انہوں نے اس میٹنگ کو “ان سے رائے حاصل کرنے” کا ایک موقع قرار دیا۔ جہاں تک نجی افطار کا تعلق ہے، کیرن جیاں پیئرے نے کہا کہ “صدر جو بائیڈن رمضان کے دوران مسلم کمیونٹی کی میزبانی کرنے کی اپنی روایت کو جاری رکھنے جا رہے ہیں۔”
بھارت ایکسپریس۔