Exclusive Interview with the Spokesperson Margaret MacLeod, US State Department: مڈل ایسٹ سے لیکر یورپ تک جنگ جاری ہے ۔ روس یوکرین کی جنگ ہو یا حماس اسرائیل کی یا پھر حوثیوں کے خلاف بحر احمر میں جنگ ہو، ان تمام جنگوں میں امریکہ واحد ایسا ملک ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔ اسرائیل حماس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ رو س یوکرین جنگ میں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے اور بحراحمر میں وہ خود فرنٹ لائن پر حوثیوں کے خلاف مورچہ بند ہے۔ ایسے میں موجودہ عالمی صورتحال پر امریکہ کا کیا موقف ہے اور فلسطین کے مستقبل کو امریکہ کیسے دیکھتا ہے۔ ان تمام مسائل پر بھارت ایکسپریس اردو کے ایڈیٹر ڈاکٹر خالد رضا خان نے امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مارگریٹ میک لاوڈ سے خاص بات چیت کی ہے۔ ذیل میں انٹرویو کے سوال و جواب درج ہیں۔
سوال: حوثی ملیشیا کو کنٹرول کرنے کیلئے امریکہ اور سعودی عرب نے ایک ساتھ اس کے خلاف جنگ کی، ایک مدت کی لڑائی کے باوجود حوثی پر قابو نہیں پایا گیا، اب قریب ایک ماہ سے بحر احمر میں امریکی جہازوں کو حوثی نشانہ بنارہا ہے ، سوال یہ ہے کہ آخر ایک معمولی تعداد والی حوثی ملیشا،جس کے پاس بہت زیادہ جدید ہتھیار بھی نہیں ہے اس کے باوجود امریکہ اس پر قابوپانے میں اب تک ناکام کیوں ہے اور ایک سوپر پاور ملک ایک چھوٹی سی ملٹری جماعت کے سامنے بے بس کیوں ہے؟
جواب: ہم دیکھتے ہیں کہ حوثی بین الاقوامی تجارت پر حملے کر رہے ہیں، اس ایک کولیشن کے ساتھ ان کےخلاف ایک دفاعی آپریشن کر رہے ہیں اور یہ بھی ظاہر کہ ایران حوثی باغیوں کو جدید ہتھیار دے رہا ہے، نہ صرف ہتھیار ان کو خفیہ ادارے سے اطلاع بھی دے رہا ہے جس سےوہ ٹارگیٹنگ کرتے ہیں۔ اس لیے امریکہ نے دوبارہ حوثی باغیوں کو دہشت گردی کی فہرست میں ڈالا ہے۔ اس لیے ہم نے سوچ مجھ کر فیصلہ کیا کیوں کہ ہم عام یمنی شہریوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہیں، اس فکر کی وجہ سے ہمارے سیکریٹری خزانہ نے یہ ظاہر کیا کہ انسانی امداد کے لیے خوراک اور ادویات پر پابندیوں کا جائزہ لیا جائے تاکہ عام شہریوں کی روز مرہ کی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔
سوال : حوثیوں کے حملے کی وجہ پوری طرح واضح ہے ، اسرائیل کا غزہ پر حملہ اور اس حملے میں امریکی سپورٹ کا یہ رد عمل ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ امریکہ اسرائیل کی غیرمشروط مدد کررہا ہے، ہتھیار دے رہا ہے اور فنڈز بھی فراہم کررہا ہے۔ ایسے میں امریکہ حوثیوں سے اپنے جہاز کو بچانے کی کوشش کے بجائے اسرائیل کو جنگ روکنے پر امادہ کیوں نہیں کررہا ہے؟
جواب: دیکھئے اسرائیل تو ہمارا سلامتی اتحادی ہے ہم ان کے لیے مختلف آبلیگیشنز ہیں اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنی دفاع کا حق ہے، لیکن یہ بھی ظاہر ہے کی حوثی باغی کے حملے جو ہیں وہ نہ صرف اسرائیل کو نقصان پہنچا رہے ہیں، نہ صرف امریکہ کو نقصان پہنچا ر ہے ہیں، بلکہ پورے بین الاقوامی تجارے پر اثرڈال رہےہیں، اس لیےCombined Maritime Forces مشترکہ بیرونی آمد و رفت کے تحت ایک ٹاسک فورس بنا کر دوسرے ممالک کے ساتھ خوشحالی، محافظ، آپریشن پراسپیریٹی گارڈین چلا رہے ہیں۔ ہم نجی کمپنیوں کے بیرونی جہاز کے ساتھ پیٹرولنگ کرتے ہیں اور اگر حوثی باغی ان پر حملے کریں تو اس کا دفاع کرتے ہیں۔
سوال: امریکہ نے غزہ میں جنگ کیلئے اسرائیل کی ہر طرح سے مدد کی ہے ، تین ماہ کے حملوں کے باوجود حتمی طور پر امریکہ یا اسرائیل کو یہ نہیں معلوم کہ حماس کے کتنے جنگجو مارے گئے ہیں ، لیکن یہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس جنگ میں اب تک 25 ہزار سے زیادہ معصوم شہری مارے جاچکے ہیں ،غزہ پوری طرح سے تباہ ہوچکا ہے ، لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں ۔ کیا اس پوری تباہی کا ذمہ دار اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی قرار نہیں دیا جانا چاہیے، چونکہ امریکہ اگر اسرائیل کے پیچھے کھڑا نہیں ہوتا تو اسرائیل اس حد تک آگے نہیں جاتا؟
جواب : ہم جانتے ہیں اس حماس اسرائیل تنازعہ میں ہلاکتیں بڑی تعداد میں ہوئیں، اس لیے ہمارے اعتمادیوں کو کہہ رہے کہ جہاں تک ممکن ہے عام شہریوں کی حفاظت کے بارے میں سوچ سمجھ کر ان پر کارروائی کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ اسرائیلی شہری اور فلسطینی لوگوں کو برابر کاحق ہے۔ انہیں بھی مستحکم اور محفوظ رہنا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں صرف دو ریاستی سولیوشن اس مسئلہ کا حل کر سکتا ہے۔
سوال: امریکہ ٹو اسٹیٹ سولوشن کی وکالت کرتا ہے ، خارجہ سکریٹری انٹونی بلنکن جگہ جگہ اس کی بات کررہے ہیں ،صدر بائیڈن بھی اس کو دوہرا رہے ہیں ،لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو اس کو سرے سے خارج کررہے ہیں۔غزہ پر قبضے کی بھی بات چل رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ امریکہ اسرائیل کے خلاف آنے سے ہچکچاتا ہے لیکن اسرائیل امریکی موقف کے خلاف جانے سے پرہیز نہیں کرتا اور کیا امریکہ مستقل جنگ بندی نہیں چاہتا ، کیا امریکہ ٹواسٹیٹ سولوشن کو صرف زبانی دعوے تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے ،اگر ایسا نہیں ہے تو پھر امریکہ اس ٹواسٹیٹس سولوشن کیلئے کوئی ٹائم فریم طے کیوں نہیں کرتا ؟کوئی سنجیدہ قدم کیوں نہیں اٹھاتا؟
جواب:میں سمجھتی ہوں کہ آج کل کی خبریں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ دو ریاستی سولیوشن کافی دور کی بات ہے لیکن ہر ایک فرد کو استحکام اور سلامتی چاہئے اور جب تک اسرائیلی اور فلسطینی دونوں کو یہ حق نہیں ملے گا تب تک یہ خطرہ برقرار رہے گا۔ اس لیے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم اتحادی خطے کے ہر ملک کے ساتھ بات کرتے رہیں تا کہ مستقبل میں ہم فلسطینی لوگوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ ان کی انسانی امداد کے لیے، ان کے باز آبادکاری کے لیے کیا کیا پروگرام کر سکتے ہیں، تعاون کر کے تاکہ خوشحالی اور استحکام اس خطے میں آ جائے۔
سوال: ابھی یہ پچھلے دنوں بات ہو رہی تھی کہ ایک ایسا اکنامک کوریڈور بنے گا جو انڈیا سے شروع ہوگا اور مڈل ایسٹ سے ہوتے ہوئے اسرائیل تک جائے گا اور فی الحال جو علاقے میں کشیدگی ہے اس کی وجہ سے اس منصوبے کو بھی دھچکا لگا ہے۔ تو آپ کیا سمجھتی ہیں کہ یہ کوریڈور مستقبل میں پورا ہوتا نظر آ رہا ہے؟
دیکھئے یہ کوریڈور کا فی لمبا ہے۔ وہ انڈیا سے ہوکر یورپ تک جاتا ہے اور جہاں بھی ہم پروگریس کر سکتے ہیں ہم کوشش کرتے ہیں۔ یہ امریکی پارٹنرشپ فار گلوبل انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ کا ایک حصہ ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کے ملک کواپنے شہریوں کی خوشحالی کے لیے ان کی معاشی نظام کے لیے ایسی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ہمیں امید ہے کہ انڈیا کے ساتھ اس منصوبے میں مزید کام کر سکیں گے، کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ غزہ میں بازآبادکاری کے لیے کافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ہم جو بھی مدد کر سکیں ان کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔