Bharat Express

Russia Ukraine War

منگل کے روز روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کے ایک حکم نامے پر دستخط کیے، جس میں روس کے ذریعہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر لگی پابندی کو کم کیا گیا۔

کیف میں امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "احتیاط  کے باعث، سفارت خانے کو بند کر دیا گیا ہے اور سفارت خانے کے عملے کو محفوظ مقام پر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

روس کی فوج نے کہا ہے کہ یوکرین نے امریکی دور مار میزائلوں سے سرحدی خطے بریانسک میں فوجی تنصیب کو نشانہ بنایا ہے، امریکی حکام کی جانب ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت ملنے کے بعد یہ پہلا حملہ ہے۔روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’دشمن نے صبح 3 بجکر 25 منٹ پر بریانسک میں ایک تنصیب کو 6 بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔

دوسری جانب صدر جوبائیڈن نے یوکرین کو روس کے خلاف امریکی اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی، امریکا کی جانب سے یوکرین کو دیے گئے میزائل 300 کلومیٹر تک باآسانی ہدف کو نشانہ بناسکتے ہیں۔

زیلنسکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میزائل خود ہی اپنی کارکردگی دکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’آج میڈیا میں بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مناسب کارروائی کرنے کی اجازت مل گئی ہے، لیکن حملے الفاظ سے نہیں کیے جاتے، ایسی چیزوں کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے تقریباً 2 سال میں پہلی بار کسی بڑے مغربی رہنما کو کال کی گئی، جرمنی کے وائس چانسلر اولاف شولز نے کیف کی جانب سے اعتراض کے باوجود روسی صدرکو کال کی۔

جنیوا میں اقوام متحدہ میں روس کے سفیر گینیڈی گیٹیلوف نے کہا، "ٹرمپ نے یوکرین کے بحران کو راتوں رات حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، ٹھیک ہے، وہ کوشش کریں، لیکن ہم حقیقت پسند لوگ ہیں، یقیناً ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔"

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کی حکومت کو روس کے ساتھ مبینہ کال کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ اس پر انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ قابل ذکر با ت یہ ہے کہ  یوکرائنی وزارت خارجہ نے اس کی تردید کی ہے۔

امریکہ کے رابرٹ ووڈ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ کیا ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا (نارتھ کوریا) کے فوجیوں کو روس کی حمایت میں یوکرین میں داخل ہونا چاہئے؟

جنوبی کوریا کے صدر اور یوکرین کے صدر زیلینسکی نے شمالی کوریا اور روس کے فوجی تعاون کی شدید مذمت کی تھی۔ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے کہا تھا کہ جنوبی کوریا پیانگ یانگ اور ماسکو کے درمیان گہرے فوجی تعلقات کو نظر انداز نہیں کرے گا۔