Bharat Express

Nuh Violence

ہریانہ کے نوح میں گزشتہ 31 جولائی کو وشو ہندو پریشد کی یاترا کے دوران فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا۔ اس تشدد میں دو ہوم گارڈ جوان اورایک مسجد کے نوجوان امام سمیت 6 افراد کی جان چلی گئی تھی۔

اے ڈی جی پی ممتا سنگھ کا کہنا ہے کہ بٹو بجرنگی کی گرفتاری تشدد پھیلانے یا فساد پھیلانے کے الزام میں نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مونو مانیسر کا بیان اشتعال انگیز نہیں ہے۔

نوح تشدد معاملے میں پولیس سے ہتھیار چھین کر فائرنگ کرنے والے ملزم کے ساتھ پولیس کا تصادم ہوا ہے۔ اس تصادم میں اس کے پیر میں گولی لگی ہے، جس کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ملزم پر 25 ہزار روپئے کا انعام ہے۔

اکھل بھارتیہ سناتن فاؤنڈیشن اوردیگر تنظیموں کے ذریعہ جنترمنترپرمنعقدہ مہاپنچایت کو خطاب کرتے ہوئے یتی نرسنہانند نے کہا، ’’اگراسی طرح ہندوؤں کی آبادی کم ہوتی رہی اورمسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا توہزاروں سال کی تاریخ خود کو دوہرائے گی۔ پھر پاکستان اوربنگلہ دیش میں ہندوؤں کے ساتھ جو ہوا، اسے یہاں بھی دوہرایا جائے گا۔‘‘

سابق وزیر اعلی نے کہا تھا کہ مدھیہ پردیش میں بجرنگ دل پر پابندی نہیں لگائی جائے گی، کیونکہ اس میں کچھ اچھے لوگ بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم فساد اور انتشار پھیلانے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔

ہریانہ کے نوح میں 31 جولائی کو ہوئے فرقہ ورانہ فسادات کے بعد سے دفعہ 144 نافذ ہے۔ اس لئے نماز جمعہ کی ادائیگی مسجد میں نہیں ہو پا رہی ہے۔ پولیس انتظامیہ نے مسلمانوں سے اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔

ہریانہ کے نوح میں 31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد معاملے میں بٹو بجرنگی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بٹو بجرگی کے بعد مونو مانیسر کوگرفتار کیا جائے گا؟ مونو مانیسرپردومسلم نوجوان ناصر اورجنید کے قتل کا الزام ہے۔

ہریانہ کے نوح تشدد کا ملزم اورمسلمانوں کو مشتعل کرنےوالا بٹو بجرنگی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس پرالزام ہے کہ اس نے نوح تشدد سے پہلے خواتین پولیس اہلکاروں سے بھی بدتمیزی کی تھی۔

مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند کے مختلف وفود میوات کے الگ الگ علاقوں میں ریلیف اور راحت رسانی کے کام میں روز اول سے مصروف ہیں۔ سروے اور قانونی کارروائی کے لئے بھی ریلیف کمیٹی، لیگل سیل اور سروے کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔

ہریانہ کے نوح تشدد کے بعد بٹو بجرنگی کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے بعد وشوہندو پریشد نے ٹوئٹ کرکے بتایا ہے کہ بجرنگ دل سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جانئے آخرکون ہے یہ بٹو بجرنگی۔