Bharat Express

Haryana Police

نوح تشدد معاملے میں پولیس سے ہتھیار چھین کر فائرنگ کرنے والے ملزم کے ساتھ پولیس کا تصادم ہوا ہے۔ اس تصادم میں اس کے پیر میں گولی لگی ہے، جس کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ملزم پر 25 ہزار روپئے کا انعام ہے۔

ہریانہ کے نوح میں 31 جولائی کو ہوئے فرقہ ورانہ فسادات کے بعد سے دفعہ 144 نافذ ہے۔ اس لئے نماز جمعہ کی ادائیگی مسجد میں نہیں ہو پا رہی ہے۔ پولیس انتظامیہ نے مسلمانوں سے اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔

ہریانہ کے نوح میں 31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد معاملے میں بٹو بجرنگی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بٹو بجرگی کے بعد مونو مانیسر کوگرفتار کیا جائے گا؟ مونو مانیسرپردومسلم نوجوان ناصر اورجنید کے قتل کا الزام ہے۔

ہریانہ کے نوح تشدد کا ملزم اورمسلمانوں کو مشتعل کرنےوالا بٹو بجرنگی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس پرالزام ہے کہ اس نے نوح تشدد سے پہلے خواتین پولیس اہلکاروں سے بھی بدتمیزی کی تھی۔

مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند کے مختلف وفود میوات کے الگ الگ علاقوں میں ریلیف اور راحت رسانی کے کام میں روز اول سے مصروف ہیں۔ سروے اور قانونی کارروائی کے لئے بھی ریلیف کمیٹی، لیگل سیل اور سروے کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔

ہریانہ کے نوح تشدد کے بعد بٹو بجرنگی کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے بعد وشوہندو پریشد نے ٹوئٹ کرکے بتایا ہے کہ بجرنگ دل سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جانئے آخرکون ہے یہ بٹو بجرنگی۔

جمعیۃ علماء ہند کا یہ وفد تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کو پلول پولس اسٹیشن لے کرگیا، جہاں پایا گیا کہ ایف آئی آرنمبر 533 پیرگلی والی مسجد کے نام سے ایف آئی آرپولس نے موقع واردات کا عینی شاہد ہونے کے بعد درج کی تھی، لیکن جماعت پر ہوئے حملہ معاملے کو اس ایف آئی آرمیں شامل نہیں گیا تھا۔

ہریانہ کے نوح تشدد میں پولیس کی طرف سے کارروائی کی جا رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دوملزمین کا پولیس نے انکاونٹرکیا ہے۔ دونوں ملزمین کے پیرمیں گولی لگی ہے۔ انہیں علاج کے لئے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔

Nuh Violence: مقامی پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے فرقہ وارانہ تشدد کے ملزمین کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ اس ضمن میں روہنگیا مسلمانوں کی طرف سے کی گئی تعمیر کو غیرقانونی قرار دے کر کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔

جو کچھ نوح میں ہوا اسے کسی طرف سے اچھا نہیں کہا جائے گا۔ اس کی وجہ سے دونوں فرقوں کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے تئیں جو شک پیدا ہوا ہے وہ خطرناک ہے۔کیونکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی تشدد میں بدلنے کی ماضی کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔