Bharat Express-->
Bharat Express

Modi Government

مرکزی حکومت نے ہندو فریق کے صدروشنوگپتا کے مقدمے کوخارج کئے جانے کی سفارش کی۔ مرکزی حکومت کے اقلیتی امور وزارت کی طرف سے مقدمے کی برقراری پرسوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہندو سینا کا مقدمہ سماعت کے لائق نہیں ہے۔ اس مقدمے کو خارج کردیا جانا چاہئے۔

سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی ایکٹ کی سماعت پرآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ نے کہا کہ ہم اس ایکٹ کو غیر قانونی مانتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سینٹرل وقف کونسل اور اسٹیٹ وقف کونسل کی تشکیل نہیں کی جائے گی اور وقف بائی یوزر کو ہٹایا نہیں جاسکتا ہے۔

نجی عازمین حج کا کوٹہ 52,507 سے کم کرکے صرف 10,000 کردیا گیا ہے۔ اس سے ایک نازک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ مختلف ریاستوں کے حج گروپ آرگنائزرز (HGOs) کے ایک وفد اور CHGOs کے مشترکہ حج گروپ آرگنائزرزنے وزیراعظم نریندرمودی سے فوری مداخلت کی درخواست کی ہے۔

سپریم کورٹ میں وقف قانون کو چیلنج دینے والی 70 سے زائد عرضیوں پرسماعت ہوئی۔ مسلم فریق کی طرف سے بیشتر دلیلیں سینئر وکیل اور راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ کپل سبل نے رکھی۔ چیف جسٹس سنجیوکھنہ کی قیادت والی تین رکنی بینچ اس موضوع کی سماعت کررہی ہے۔

عدالت نے تبصرہ کیا ہے کہ وقف بورڈ میں سابق ممبران کے علاوہ صرف مسلم ممبران ہونے چاہئیں، جس کی سالیسٹرجنرل تشار مہتا نے مخالفت کی۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے آج کوئی فیصلہ صادرنہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی کسی بورڈ کی مدت ختم نہیں ہورہی ہے۔ پی آئی ایل کی درخواستوں کی سماعت کے بعد اس طرح کے احکامات نہیں دیئے جانے چاہئیں۔ یہاں کوئی وقف بورڈ نہیں آیا ہے۔

سعودی عرب کی طرف سے حج پرجانے والے ہندوستانی عازمین حج کے لئے طے شدہ تقریباً 52 ہزار حج سلاٹ کو منسوخ کئے جانے کی رپورٹ کے بعد اپوزیشن کے کئی لیڈران نے تشویش کا اظہارکیا ہے۔ اپوزیشن نے مرکزی حکومت سے اس معاملے میں سعودی عرب کے سامنے اس موضوع کو اٹھانے کی اپیل کی ہے۔

ہندوستان اور سعودی عرب کے مضبوط تعلقات کے سبب 2025 کے سفرحج کو آسان بنانے میں کامیابی ملی ہے۔ حج کوٹے میں اضافہ، بہتر سہولیات اور سرکاری کوششوں سے عازمین حج کو راحت ملی ہے۔ پرائیویٹ ایجنٹوں کی پریشانی کے باوجود ہندوستانی حکومت نے سفارتی کوششوں کے ذریعے 10,000 مسافروں کے اضافی داخلے کو یقینی بنایا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے میٹنگ میں بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند نے وقف کے تحفظ کے لیے آزادی سے قبل اوربعد میں تاریخی کردارادا کیا ہے۔ 1937 میں شریعت ایپلی کیشن ایکٹ اوربعد ازاں وقف ایکٹ 1954 اور1995 میں جمعیۃ کی سفارشات کو شامل کیا گیا، لیکن موجودہ حکومت کسی بھی دینی اورقانونی ادارے کی رائے کو خاطرمیں نہیں لائی۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ وقف قانون میں مرکزی حکومت کے ذریعہ من مانی، متنازعہ، دستوری حقوق سے متصادم ، امتیازوتفریق اورفرقہ واریت پرمبنی ترمیمات نے فی الواقع مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا ہے، جس کا اظہار ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج و مظاہروں کی شکل میں ہو رہا ہے۔

وزیراعظم مودی کے وقف جائیداد اورمسلمانوں پردیئے گئے بیانوں کے بعد کانگریس نے سخت پلٹ وارکیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ دگوجے سنگھ نے الزام لگایا کہ بی جے پی کے زیراقتدارریاستوں میں اقلیتوں کے ساتھ دشمنوں کی طرح برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ اب سیاسی بحث کا مرکزبن گیا ہے، جس میں اقلیتوں کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔