Bharat Express

Israel-Hamas Cease Fire

رفح بارڈرپراسرائیل کے حملے کے خطرے کے درمیان اسرائیل-حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات جاری ہے۔ جنگ بندی کے لئے اسرائیل کی تجویز پرجواب دینے کے لئے حماس کا ایک وفد مصر جا رہا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ کوشش رنگ لائے گی۔

حماس گروپ کے ایک سینئر لیڈر نے کہا ہے کہ حماس، اسرائیل کے ساتھ پانچ سال یا اس سے زیادہ وقت کے لئے سیز فائر کرنے پر تیار ہے۔ اس کے علاوہ اگر1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کا قیام ہوجاتا ہے تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دے گا اور ایک سیاسی پارٹی بن جائے گا۔

غزہ اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ سال اکتوبر سے مسلسل جنگ جاری ہے۔ اس کے بعد سے پاکستان میں فلسطین کی حمایت میں کئی پرتشدد مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔

سید جلال الدین نے کہا کہ حماس سے جنگ تھی تو ہوتی اور جو جنگی قوانین ہیں ان پر عمل کیا جاتا لیکن گریٹر اسرائیل بنانے کا خواب لیے اسرائیل غزہ میں نسل کشی پر آمادہ ہے۔

اسرائیل کے وزیرتوانائی ایلی کوہن نےزوردے کرکہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہداف اورمفادات اسرائیل کے بغیرحاصل نہیں ہوسکتے۔ اگراسرائیل مدد نہیں کرے توامریکہ کے لئے خطے میں اپنے مفادات کا حصول ممکن نہیں۔

حملے کے فوراً بعد سائپرس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ امدادی سامان کے ساتھ بھیجے گئے جہاز واپس لوٹ رہے ہیں اور تقریباً 240 ٹن امدادی سامان جہاز سے نہیں اتارا جا سکا۔

صدر کی ڈیموکریٹک پارٹی کو خدشہ ہے کہ بائیڈن کے لیے مسلمانوں کی کم ہوتی حمایت ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

غزہ جنگ بندی مذاکرات ناکام ہونے کے بعد حماس نے پھراپنے چار مطالبات اسرائیل کے سامنے رکھے ہیں، جن کو اسرائیل کے ذریعہ خارج کیا جاچکا ہے۔ ثالثی کرانے والے ممالک قطرکا کہنا ہے کہ ابھی تکنیکی طور پر بات چیت جاری ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے انٹرویو میں تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکی قرارداد کی حمایت کریں۔ قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے قاہرہ میں 6 عرب ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی۔

اسرائیلی اہلکار کے مطابق، مذاکرات کے اس مرحلے میں کم ازکم دوہفتے لگ سکتے ہیں، جس سے حماس کے مذاکرات کاروں کو 5 ماہ سے زائد جنگ کے بعد محصورپٹی کے اندرتحریک کے ساتھ بات چیت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔