حماس لیڈر خلیل الحیہ نے جنگ بندی سے متعلق اسرائیل کو بڑی پیشکش کی ہے۔
اسرائیل-فلسطین کشیدگی کے درمیان ایک بڑی خبرسامنے آئی ہے۔ غزہ میں حکومت چلانے والے حماس کے ایک سینئرلیڈرخلیل الحیہ نے ایسوسی ایٹ پریس (اے پی) کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ حماس-اسرائیل کے ساتھ پانچ سال یا اس سے زیادہ کی جنگ بندی پررضا مند ہونے کے لئے تیارہے۔ اگر1967 کی سرحدوں پرایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام کیا جاتا ہے تو وہ اپنے ہتھیارڈال دے گا اورخود کو آرم گروپ سے ایک سیاسی پارٹی میں تبدیل کردے گا۔ بدھ کے روزاے پی کو استنبول میں دیئے گئے انٹرویو میں خلیل الحیہ کا یہ بیان اسرائیل کو فلسطینی سرزمین سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے حماس کے عزائم میں خاص نرمی کے طورپردیکھا جا سکتا ہے۔
پُرامن مذاکرات کے درمیان آیا بڑا بیان
حماس کی سیاسی ونگ کے لیڈرخلیل الحیہ کا یہ بیان مہینوں سے چل رہی پُرامن مذاکرات کی میٹنگوں کے درمیان آیا ہے، لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کہ اسرائیل اس مشورے پرغورکرے گا۔ کیونکہ 7 اکتوبر2023 کے حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے حماس کو کچلنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ حالانکہ اسرائیل کو خود کو بڑے پیمانے پرنقصان ہورہا ہے اور عالمی سطح پر اس کی شبیہ کو کافی دھچکا لگا ہے۔ پوری دنیا نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے اور غزہ میں جنگ بندی کے لئے وارننگ دی ہے۔ واضح رہے کہ حماس بھی ہمیشہ سے ٹواسٹیٹ فارمولے کے خلاف رہا ہے اورپوری زمین پرفلسطینی ریاست کے قیام اوراسرائیل کے خاتمے کی بات کرتا رہا ہے۔
”حماس کی فوجی ونگ کو کردیں گے تحلیل“
استنبول میں نیوزایجنسی اے پی سے بات کرتے ہوئے، خلیل الحیہ نے کہا کہ حماس، غزہ اورویسٹ بینک کے لئے ایک حکومت بنانے کے لئے اپنے حریف فتح گروپ کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) میں شامل ہونے کے لئے تیارہے۔ انہوں نے کہا کہ اگراسرائیل 1967 سے پہلے کی سرحدوں پرویسٹ بینک اورغزہ پٹی میں ایک آزاد فلسطینی ریاست اوربین الاقوامی تجاویزکے مطابق، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کو قبول کرے تو ہم اپنی فوجی ونگ کو تحلیل کردیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ تمام تجربہ کارلوگ جنہوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑا ہے۔ جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوجائے گا اورفلسطینیوں کوان کے مکمل حقوق مل جائیں گے تو وہ سب لوگ سیاسی جماعتوں میں شامل ہو جائیں گے اورایک دفاعی فوج کا قیام فلسطینی ریاست کرے گی۔
”حماس کو ختم کرنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے اسرائیل“
خلیل الحیہ نے ایک سوال کے جواب میں دوٹوک اندازاختیارکرتے ہوئے کہا کہ حماس اسرائیلی یا اس جیسی دوسری کسی بھی فوج پرحملہ کرسکتی ہے جوایک تیرتی ہوئی عارضی بندرگاہ کے اردگرد تعینات ہوسکتی ہے۔ واضح رہے یہ تیرتی ہوئی عارضی بندرگاہ امریکہ تعمیرکررہا ہے۔ خلیل الحیہ نے 7 اکتوبر2013 کو حماس کی طرف سے اسرائیل پرکئے گئے حملے پرکوئی افسوس ظاہرنہیں کیا۔ تاہم انہوں نے اس الزام کی تردید کی کہ حماس کے لوگوں نے حملے کے دوران اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا ہمارے اس حملے کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین پوری دنیا کے سامنے دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں فلسطینی رہنما نے کہا ‘وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حماس کو تباہ کردیا ہے۔ ان کی یہ غلط فہمی ہے۔ انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ فلسطینی عوام آج بھی غزہ میں موجود ہے اورکیا فلسطینی کہیں چلے گئے ہیں؟’
واضح رہے حماس کی طرف سے بعض اوقات اسرائیل کو ایک ریاست کے طورپرآزاد فلسطینی ریاست کے ساتھ ساتھ قبول کرلینے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ تاہم حماس کا باضابطہ موقف آج بھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ حماس اورفتح میں بھی لمبے وقت سے اختلاف کی صورتحال ہے۔ غزہ پرفتح سے اقتداراپنے ہاتھ میں لینے کے لئے حماس نے ایک لمبی جدوجہد کی ہے۔ ان دونوں گروپوں کے درمیان آپسی جدوجہد کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔
بھارت ایکسپریس۔