غزہ میں جنگ بندی کے لئے ابھی تک بات نہیں بن سکی ہے۔
غزہ جنگ بندی کے لئے کی جانے والی تمام کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ توقع کی جا رہی تھی کہ لڑائی رمضان سے پہلے رک جائے گی، لیکن حماس نے اسرائیل کی طرف سے پیش کی گئی شرائط کومسترد کردیا تھا، جس کے بعد قطرمیں جنگ بندی کے مذاکرات ازسرنوشروع ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق حماس نے جنگ بندی کے لئے چارمطالبات کئے تھے، جنہیں اب اسرائیل نے مسترد کردیا ہے۔ فلسطینی فریق کا کہنا ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کے حوالے سے اسرائیل کا موقف ‘لچکدار’ ہے۔
جنگ بندی میں ثالثی کرنے والی قطرکی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے پیرکے روزکہا کہ امارات غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے بارے میں پُرامید ہے اورتکنیکی بات چیت ابھی جاری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم جنگ بندی کے معاہدے کے قریب نہیں ہیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ مذاکرات جلد کسی نتیجے پرپہنچ جائیں گے۔ اپنے بیان میں ماجدالانصاری نے اس بات پربھی زور دیا کہ رفح پر اسرائیلی حملے سے تصفیہ کے مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اوریہ شہریوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
حماس کے 4 مطالبات کیا ہیں؟
حماس نے جنگ بندی کے حوالے سے چارمطالبات کئے تھے، جس میں مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء، غزہ کے بے گھرہونے والوں کی ان کے مقامات پرواپسی اور یرغمالیوں کے تبادلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق، اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل طورپرپیچھے ہٹنے کوتیارنہیں ہے، اس کے علاوہ اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے رہا کئے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد پربھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
اسرائیل-حماس جنگ کے 172 دن
حماس-اسرائیل جنگ شروع ہوئے 172 دن گزرچکے ہیں۔ اسرائیل کے حملوں سے غزہ کے باشندوں پرخطرناک انسانی بحران بنا ہوا ہے۔ اب تک تقریباً 35 ہزارلوگوں کی جان جاچکی ہیں، غزہ کے لوگ کھانے اوردوائی جیسی بنیادی سہولیات کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل نے غزہ جانے والے یواین ایجنسی کی ٹرکوں پربھی پابندی لگا دی ہے، جس سے صورتحال مزید خراب ہونے کی امید ہے۔
بھارت ایکسپریس۔