تارکین وطن اور شہری حقوق کے گروپوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد دستخط کیے گئے انتظامی احکامات کو چیلنج کرتے ہوئے کئی مقدمات دائر کر دیے، جن میں امریکا میں پیدائشی شہریت کو واپس لینے کی کوشش کا حکم بھی شامل ہے۔خبر ہے کہ امریکہ کی 22 ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے صدر ٹرمپ کے امیگریشن اور پیدائش پر شہریت ملنے کے صدی پرانے قانون کو ختم کرنے کے اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو 700 الفاظ پر مبنی صدارتی حکمنامہ جاری کیا تھا جس میں ایجنسیوں کو امریکہ میں پیدا ہونے والے اُن بچوں کی امریکی شہریت تسلیم کرنے سے روک دیا ہے جن کی والد یا والدہ میں سے کوئی بھی امریکہ کا شہری یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہے۔
ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز اور امیگریشن حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا قانون پیدائش پر شہریت کا حق دیتا ہے اور اگرچہ صدر وسیع اختیارات رکھتا ہے لیکن بادشاہ نہیں ہے۔قانونی فرم نیو انگلینڈ کے مقدمات کا ہدف ٹرمپ کی جانب سے بڑے پیمانے پر امیگریشن کریک ڈاؤن کا ایک مرکزی حصہ تھا، جس میں وفاقی ایجنسیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ غیر قانونی طور پر ملک میں موجود یا عارضی طور پر موجود ماؤں کو امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے امریکی شہریت کو تسلیم نہ کریں، جیسے ویزا ہولڈرز، اور جن کے والد شہری یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہیں۔
ٹرمپ کے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکن سول لبرٹیز یونین اور دیگر گروپوں نے نیو ہیمپشائر کے شہر کونکورڈ میں اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے پہلا مقدمہ دائر کیا، ایک اور مقدمہ بوسٹن میں آدھی رات کے وقت ایک حاملہ ماں اور تارکین وطن کی تنظیموں کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔
بھارت ایکسپریس۔