Bharat Express

Gaza Under Attack

غزہ میں اسرائیلی فوج اور مسلح فلسطینی دھڑوں کے درمیان کشیدگی کے آغاز کے بعد سے جنگ اپنے 28 ویں دن میں داخل ہو گئی ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے غزہ کے مسلمانوں کی آزادی کا اعلان کیا ہے۔ ان کا یہ اعلان براہ راست اسرائیل کو اسلامی اور غیر اسلامی پولرائزیشن کی بنیاد پر گھیرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ اس میں عرب اسرائیل جنگ کے ماضی کی جھلک بھی موجود ہے۔

امریکیوں کو یہ امید ہے کہ وزیرخارجہ کے دورے کے نتیجے میں غزہ کو انسانی امداد بھیجنے کا رستہ کھل جائے گا۔امریکہ کے عرب اتحادی اب اسرائیل کے حملوں کی کھلم کھلا مذمت کر رہے ہیں۔اسرائیل کا دورہ مکمل کرنے کے بعد امریکی وزیرخارجہ اردن جائیں گے جہاں وہ اپنے عرب اتحادیوں کے تحفظات براہ راست سنیں گے۔

اسرائیل کی غزہ پر جاری جارحیت کے بعد لبنان میں سرگرم تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا جمعے کو اہم اعلان متوقع ہے جس میں وہ تمام تر صورت حال پر اپنا موقف پیش کریں گے۔حسن نصر اللہ پہلی مرتبہ چپ توڑیں گے اور ان کے متوقع بیان کو اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسرائیلی فوجی بریگیڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ سے بہت نقصان اٹھایا ہے،

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں دونوں طرف سے ہلاکتوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 8 ہزار 796 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں

وزیر خارجہ ماریا نیلا پرادا نے کہا کہ اسرائیل پر انسانیت کو نظر انداز کرنے کا الزام ہے۔ انہوں نے ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں اور لوگوں کے بے گھر ہونے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔

حماس کے حملے اور اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائی میں اب تک 9000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اب حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کر رہا ہے۔ اسرائیلی فوج اب ٹینکوں کے ساتھ غزہ میں داخل ہوگئی ہے۔

مصر کے صدارتی ترجمان نے فیس بک پوسٹ میں کہا کہ دونوں رہنماؤں نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور شہریوں کی زندگی پر اس کے تباہ کن اثرات یا اس سے پورے خطے کی سلامتی کو لاحق خطرات کے بارے میں اپ ڈیٹس پر تبادلہ خیال کیا

ایران نے اسرائیل کے لیے ڈھال بن کر کھڑے امریکہ کو بھی جنگ کی آگ میں جلانے کی دھمکی دی ہے۔ دوسری جانب بحیرہ عرب میں اسرائیل کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے امریکی فوجی دستوں کی تعیناتی بڑھ رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران یا اس کی حمایت یافتہ شدت پسند تنظیمیں کسی امریکی ملازم پر حملہ کرتی ہیں تو امریکہ اپنے لوگوں کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔