Bharat Express

Gaza Under Attack

وزیر اعظم نریندر مودی نے فوری طور پر اس کی مذمت کی اور اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا۔ مائیکرو بلاگنگ سائٹ ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات بھی کی تھی ۔لیکن انہوں نے حماس کا نام نہیں لیا۔

اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں جمعہ کو صبح سے پہلے چھاپے مار کر ایک خاتون سمیت کم از کم 19 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق اسرائیلی فورسز نے رام اللہ اور البریح گورنری میں چار شہریوں کو گرفتار کر لیا۔

غزہ کے الاقصیٰ اسپتال کے انکیوبیٹر میں پڑے معصوم بچوں کی زندگی کا چراغ ٹمٹاتا ہوا،عالم عرب کی بے حسی ان کی موت کا سبب بن رہی ہے۔ عالمی سیاست ان  کی سانسوں پر بھاری پڑ رہی ہے۔

اسدالدین اویسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس معاملے پر قرارداد منظور کی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کی زمین پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل کو اب یہ زمین واپس کرنی چاہیے، اسے غزہ کا پورا حصہ فلسطین کو واپس کرنا چاہیے۔ "

اس جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں کو بنیادی چیزوں کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑرہی  ہے۔ ادھر عالمی امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پٹی تک پہنچنے والی انسانی امداد کافی نہیں ہے۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری اس وارننگ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے حماس  تنظیم کا مددگار تصور کیا جائے گا۔

ارندم باغچی نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا ہے کہ بھارت کی طرف سے بھیجے گئے امدادی سامان میں زندگی بچانے والی ضروری ادویات، سرجیکل اشیاء، خیمے، سلیپنگ بیگ، ترپال، صفائی کی سہولیات، پانی صاف کرنے کی گولیاں اور دیگر ضروری اشیاء شامل ہی

نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے اویسی نے کہا تھا، ’’21 لاکھ کی آبادی والے ملک کے 10 لاکھ غریب لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ دنیا خاموش ہے۔ آپ کو اسرائیلی قبضہ نظر نہیں آتا، آپ کو مظالم نظر نہیں آتے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری شدید جنگ میں امریکہ بھی بیک ڈورسے قیادت کر رہا ہے۔ پہلے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کیے، پھر 18 اکتوبر کو بائیڈن نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی۔

آج کا دن بھی غزہ میں موت کے ننگا ناچ کا دن رہا ۔آج کی صبح بھی خون خرابے سے ہوئی اور شام بھی دھماکے سے۔ ایک ہفتے سے زیادہ ہوگئے ۔غزہ اور فلسطین میں یہی موسم ہے اور یہی روزمرہ کی روداد۔ مرنے والوں کی فہرست روزانہ دراز ہوتی چلی جارہی ہے اور کفن کیلئے کپڑے کم پڑنے لگے ہیں ۔