نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے درمیان دوستی اب ختم ہوگئی ہے۔
بہارکی سیاست میں مچنے والی ہنگامہ آرائی واضح طورپردکھائی دے رہی ہے۔ نتیش کمارانڈیا الائنس سے الگ ہوکربی جے پی کا دامن تقریباً تھام چکے ہیں۔ بی جے پی-نتیش کمارکے درمیان ڈیل فائنل ہوگئی ہے، اب اس کا محض اعلان ہونا باقی ہے، لیکن اس پورے کھیل میں ایک طرف نتیش کمارسوالوں کے گھیرے میں ہیں کیونکہ بی جے پی کے خلاف اپوزیشن الائنس بنانے میں ان کا اہم کرداررہا ہے۔ اب وہ اسی انڈیا الائنس کے خلاف ہوکربی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت استعفیٰ دے سکتے ہیں اوربی جے پی کی حمایت سے 9ویں بارپھران کی تاج پوشی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس معاملے میں سب سے بڑا جھٹکا آرجے ڈی سربراہ لالوپرساد یادواورتیجسوی یادوکو لگنے جا رہا ہے۔
نتیش کمار کا پارٹی پرمکمل کنٹرول
اگرہم فلیش بیک میں جاتے ہیں تو انڈیا الائنس کی چوتھی میٹنگ کے بعد نتیش کمارنے آرجے ڈی سے الگ ہوکربی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نتیش کمارنے خود کو مضبوط رکھنے کے لئے پہلے پارٹی پراپنا مکمل کنٹرول کیا اورللن سنگھ کو ہٹاکران کی جگہ خود پریسیڈینٹ یعنی پارٹی صدربن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے پارٹی ایگزیکٹیومیں بھی للن سنگھ اوران کے قریبی لوگوں کو جگہ نہیں دی۔ لالوپرساد یادوبھلے ہی سب سے بڑی پارٹی ہوں، لیکن آرجے ڈی فی الحال پیچھے ہوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ للن سنگھ کا قد چھوٹا کیا جانا لالو یادواورتیجسوی یادو کے لئے بڑا جھٹکا تھا کیونکہ انہیں آرجے ڈی حامی مانا جاتا ہے۔ نتیش کے اس فیصلے سے تیجسوی یادو اس قدر متاثرہوئے تھے کہ انہوں نے اپنا طے شدہ غیرملکی دورہ منسوخ کردیا تھا۔
نتیش کمارکونہیں منا سکے لالویادو
نتیش کمارکی حالیہ بے رخی اورآرجے ڈی کا ساتھ چھوڑکرجانے کی خبروں کے بعد لالو پرساد یادو نے کافی کوشش کی کہ نتیش کمارکو منا لیا جائے، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک طرف خبر یہ بھی آئی کہ جے ڈی یو کے کچھ غیرمطمئن اراکین اسمبلی پارٹی سے استعفیٰ دے سکتے ہیں اورپھرآرجے ڈی حکومت بناسکتی ہے، لیکن ایسی باتوں میں حقیقت بہت زیادہ نہیں ہے۔ بلکہ کانگریس کے ٹوٹنے کی خبریں آنے لگی ہیں، ابھی کانگریس نے بھی اسے مسترد کردیا ہے اوربھارت ایکسپریس اردو سے بات کرتے ہوئے کانگریس لیڈر ڈاکٹر شکیل احمد خان نے کہا کہ پارٹی پوری طرح سے محفوظ ہے اورہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے، میڈیا کی طرف سے غلط خبریں دکھائی جارہی ہے، لیکن بہارکے پورنیہ میں کانگریس اراکین اسمبلی کی میٹنگ ہونی تھی، بتایا جاتا ہے کہ اس میٹنگ میں تقریباً 10 اراکین اسمبلی نہیں پہنچے، جس کے بعد میٹنگ ملتوی کردی گئی۔ کانگریس کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ یہ میٹنگ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کے لئے تھی۔
بہارمیں راہل گاندھی کے لئے بڑا جھٹکا
راہل گاندھی جب بہارپہنچیں گے تو ان کی انڈیا الائنس میں بڑی ٹوٹ ہوسکتی ہے۔ اب آرجے ڈی نے کانگریس کے بڑے لیڈران سے بات کرکے کانگریس کو ٹوٹنے سے بچانے کو لے کرمشقت کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ تاہم آرجے ڈی کا ایک بڑا گروپ مانتا ہے کہ نتیش کمار کے استعفیٰ کے بعد سے ہی پورا کھیل پلٹ جائے گا اورنئے اسپیکر کے الیکشن کے بعد آرجے ڈی اور کانگریس این ڈی اے کو اپنی حکمت عملی نافذ کرنے سے روک نہیں پائے گی۔ آرجے ڈی کیمپ میں اس بات سے متعلق مایوسی ہے۔ لالو پرساد یادو کا کیمپ اپنی ہار طے مان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بکسرمیں نتیش کمارایک سرکاری پروگرام میں اکیلے گئے، ان کے ساتھ تیجسوی یادو طے شدہ پروگرام باوجود وہاں نہیں پہنچے۔ فی الحال آرجے ڈی اور اس کی اتحادی کانگریس، لیفٹ سمیت اے آئی ایم آئی ایم کو ملاکراراکین اسمبلی کی تعداد 115 ہے اورحکومت بنانے کے لئے ابھی بھی 7 اراکین اسمبلی کی ضرورت ہے، لیکن آرجے ڈی اگر جے ڈی یو کے اراکین اسمبلی کو توڑنے کی پہل کرتی ہے تو پھرفوراً کانگریس میں ٹوٹ کراکرلالو پرساد یادو کے کیمپ کو جواب دینے کی تیاری بھی کرلی گئی ہے۔
نتیش کمارنے اراکین اسمبلی کی رائے بھی لی
نتیش کماربالکل مطمئن نظرآرہے ہیں اوراس باران کا اپنے اراکین اسمبلی کے موڈ کو بھانپنے کا طریقہ تھوڑا مختلف ہے۔ پچھلی بار انہوں نے خود ایک ایک ایم ایل اے سے مل کراین ڈی اے سے الگ ہونے کے لئے رائے شماری کی تھی، لیکن اس بار انہوں نے اپنے بھروسے مند لیڈروں کو لگاکر ایک ایک ایم ایل اے کا فیڈ بیک لینے کا کام کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اشوک چودھری اور سنجے جھا سمیت کچھ اور لیڈروں نے الگ الگ طریقے سے ایم ایل اے سے بات کرکے نتیش کمار کو ایک ایک ایم ایل اے کی رائے سے آگاہ کیا۔ ایسے میں پارٹی اراکین اسمبلی کو احساس بھی نہیں ہوسکا کہ نتیش کمار کیا سوچ رہے ہیں۔
این ڈی اے میں شامل ہونے کی راہ ہموار
نتیش کمار اپنی پارٹی کو بچاتے ہوئے این ڈی اے میں شامل ہونے کی راہ ہموارکرچکے ہیں۔ آرجے ڈی کے ساتھ حکومت میں رہنے کے دو سب سے بڑے حامی للن سنگھ اوروجیندریادو کو بھی نتیش کمارنے پہلے ہی منا لیا تھا، اس لیے بی جے پی کے سخت مخالف للن سنگھ، بہار کے سابق وزیراعلیٰ کرپوری ٹھاکر کے دوست تھے۔ کرپوری ٹھاکرکی جنم شتابدی کو جے ڈی یو اور آرجے ڈی الگ الگ 24 جنوری کو منا رہی تھیں، لیکن جے ڈی یو کی تقریب میں بی جے پی کے خلاف ایک بھی بڑے لیڈر نے بیان دینے سے پرہیز کیا تھا۔ جے ڈی یو لیڈروں کو کرپوری ٹھاکرکو بھارت رتن دینے پر پی ایم مودی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ بہار کے سی ایم نتیش کمار نے اسی میٹنگ میں شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک بڑا اشارہ دیا تھا، ایک طرف انہوں نے پریوار واد کی سیاست پر سوال اٹھایا تو دوسری طرف انہوں نے کرپوری ٹھاکرکوبھارت رتن دیئے جانے کے بعد آندرھرا پردیش کے طرز پربہارکو اسپیشل پیکیج دیئے جانے کا مطالبہ کیا،جسے این ڈی اے میں شامل ہوتی ہے پورا کیا جاسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب پی ایم مودی 4 فروری کو بہار کے دورہ پرہوں گے تبھی اس کا اعلان بھی کیا جاسکتا ہے۔ پی ایم مودی دو بار کا بہاردورہ اسی وجہ سے کینسل کر رہے تھے۔ پی ایم مودی کے اعلان کے بعد جے ڈی یو یہ کہہ سکے گی کہ بہارکی بھلائی جے ڈی یو کی اولین ترجیح ہے، اس لئے جے ڈی یو نے پالا بدل کربی جے پی کے ساتھ چلنے کا من بنایا ہے۔
چراغ پاسوان کو بی جے پی نے راضی کرلیا
اب سوال اٹھتا ہے کہ جے ڈی یوایک بارپھربی جے پی کے ساتھ جانے کے لئے کیوں تیارہوئی؟ دراصل بی جے پی کی اولین ترجیح لوک سبھا الیکشن 2024 میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنا ہے۔ رام مندرکی تعمیر اوراس کے افتتاح کے باوجود بی جے پی ذات پات کی مساوات کو مضبوطی سے اپنے حق میں بدلنا چاہتی ہے۔ بی جے پی ذرائع کے مطابق پارٹی نے کئی سروے میں پایا ہے کہ اس باربی جے پی 2019 کے اعداد وشمارسے بہت پیچھے رہ جائے گی۔ اس لیے مقامی لیڈروں سے رابطہ کرنے کے بعد پارٹی نے نتیش کماراوربی جے پی کے ساتھ مل کر لوک سبھا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اوراس کے اتحادی 40 میں سے 40 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ نتیش کمارکے این ڈی اے میں شامل ہونے سے چراغ پاسوان کافی ناراض ہیں، لیکن مانا جا رہا ہے کہ بی جے پی ہائی کمان نے ان سے بات کرکے اس مسئلے کو حل کرلیا ہے۔ چراغ پاسوان کی ملاقات وزیرداخلہ امت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا سے ہوئی ہے۔ بی جے پی نے واضح طور پر جے ڈی یو کو بتا دیا ہے کہ چراغ پاسوان این ڈی اے میں ہی رہیں گے۔ لہذا، بی جے پی چراغ پاسوان کی قیمت پرجے ڈی یو کے ساتھ کسی بھی شرط پرسمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مودی حکومت کے خلاف بنائے گئے اپوزیشن کے انڈیا الائنس کے روح رواں بھی نتیش کمار ہی تھے، اس لئے نتیش کمار کو ایک طرف اس بات کا افسوس تھا کہ انہیں انڈیا الائنس کا کنوینر نہیں بنایا گیا وہیں دوسری طرف ان کے جانے کے بعد انڈیا الائنس پوری طرح سے بکھرجائے گا کیونکہ ممتا بنرجی پہلے ہی مغربی بنگال میں اکیلے الیکشن لڑنے کا اعلان کرچکی ہیں۔نتیش کمار کے بی جے پی کے ساتھ جانے سے بڑا فائدہ ہوگا وہیں آرجے ڈی اور انڈیا الائنس کو کافی بڑا نقصان ہوگا۔
بھارت ایکسپریس۔