اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو
اسرائیل: اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے کے معاہدے پر اتفاق رائے قائم ہو گیا ہے۔ یہ معاہدہ غزہ پٹی میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ سال 2025 کی شروعاتی دنوں میں اسرائیل اور حماس کے بیچ سیزفائر پر اتفاق ایک بڑی کامیابی مانی جا رہی ہے ۔ اس معاہدہ کے تحت حماس اگلے 6 ہفتوں میں 33 قیدیوں کو رہا کرے گا ، جب کے سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل کی طرف سے چھوڑا جائے گا ۔ یہ معاہدہ دو حصوں میں ہوگا ، جہاں پہلے حصہ میں قیدیوں کی رہائی اور دوسرے حصہ میں مرد فوجیوں کے ساتھ باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کی جائے گی۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کی سرکار اس معاہدے کو لے کر اندرونی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے ۔ ان کی کابینہ کے ایک وزیر نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر ملک فلاڈیلفی کوریڈورکو ہٹاتاہے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے ۔ یہ کوری ڈور غزہ پٹی اور مصر کے بیچ زمین کا ایک تنگ حصہ ہے اور یہ جنگ بندی مذاکرات میں رکاوٹ بن گیا ہے۔
معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن سکتا ہے سیاسی عدم استحکام
امیچائی چکنی، جو نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے وزیر ہیں۔ انہوں نے اس معاہدے سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے علاوہ بیزالل اسموٹرچ کی مذہبی صیہونیت پارٹی نے بھی حکومت سے حمایت واپس لینے کی دھمکی دی ہے جو نیتن یاہو کی حکومت کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ سیاسی عدم استحکام معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
غزہ پٹی میں ہلاکتوں کی تعداد
غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں میں 46000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اسرائیل نے 17000 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے، حالانکہ اس بارے میں کوئی واضح ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے۔
جنگ بندی پر عمل درآمد میں کئی پیچیدگیاں
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ایک اہم قدم ہے لیکن اس پر عمل درآمد میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ نیتن یاہو حکومت کے اندرونی چیلنجز اور غزہ میں انسانی بحران اس معاہدے کی کامیابی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ دونوں فریقوں کے درمیان معاہدے پر مکمل عملدرآمد کے لیے سفارتی اور انسانی کوششوں کی ضرورت ہے۔
بھارت ایکسپریس۔