Bharat Express

Iran and US set for nuclear talks: جوہری پروگرام پر امریکہ-ایران کے مابین بات چیت کا اعلان، ثالثی کا کردار ادا کرے گا عمان،اسرائیل پریشان

فی الحال دونوں فریقوں نے مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے، لیکن ان کی نوعیت کے بارے میں ابہام برقرار ہے۔ امریکی ذرائع کے مطابق، یہ بات چیت ممکنہ طور پر اسٹیون وٹکاف کی سربراہی میں ہوگی، جو ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی ہیں۔

امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے باوجود جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت کا اعلان ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آیا ہے۔  تازہ ترین  رپورٹ کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی حکام عمان کی ثالثی میں جوہری مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ یہ مذاکرات 12 اپریل کو متوقع ہیں، لیکن دونوں فریقوں کے دعووں میں فرق موجود ہے کہ آیا یہ براہِ راست ہوں گے یا بالواسطہ۔ ٹرمپ نے کہا کہ یہ “اعلیٰ سطح پر براہِ راست بات چیت” ہوگی، جبکہ ایران نے اسے “بالواسطہ” قرار دیا، جس سے اس عمل کی پیچیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے کیونکہ یہ خطے میں امن و استحکام کے امکانات کو متاثر کر سکتی ہے۔حالانکہ اس مذاکرات کی تصدیق ایرانی وزیرخارجہ نے بھی کردی ہے۔

یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مغربی ممالک کے تحفظات بڑھ رہے ہیں۔ ایران نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن امریکہ اور اسرائیل اسے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو ایران کو “شدید خطرے” کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو ان کی “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ دوسری جانب، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اگر امریکہ یا اس کے اتحادیوں نے حملہ کیا تو ایران جوابی کارروائی کرے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنے موقف پر سختی سے قائم ہیں۔

واضح رہے کہ عمان، جو تاریخی طور پر دونوں ممالک کے درمیان رابطے کا ذریعہ رہا ہے، اس بار بھی ثالثی کے طور پر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ان مذاکرات کو “ایک موقع اور امتحان” قرار دیا، اور کہا کہ امریکہ کو اپنے ارادوں کا ثبوت دینا ہوگا۔ دوسری طرف، ٹرمپ انتظامیہ نے اسے ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، جو حال ہی میں ٹرمپ سے ملے، ان مذاکرات کے نتائج پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ اسرائیل ایران کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اس ملاقات میں ایران کے خلاف ممکنہ فوجی ردعمل پر بھی بات ہوئی تھی۔

فی الحال دونوں فریقوں نے مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے، لیکن ان کی نوعیت کے بارے میں ابہام برقرار ہے۔ آرکے ذرائع کے مطابق، یہ بات چیت ممکنہ طور پر اسٹیون وٹکاف کی سربراہی میں ہوگی، جو ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی ہیں۔ ایران نے واضح کیا کہ وہ اپنے پرامن جوہری پروگرام کو ختم کرنے پر بات نہیں کرے گا، لیکن فوجی استعمال کے خدشات پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو یہ نہ صرف ایران اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری لا سکتے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں تناؤ کو بھی کم کر سکتے ہیں۔ تاہم، ناکامی کی صورت میں فوجی تصادم کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

بتادیں کہ یہ مذاکرات عالمی سیاست میں ایک نازک موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ چین اور روس نے ایران کی حمایت میں بیانات دیے ہیں، جبکہ یورپی ممالک بھی اس عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی نیا معاہدہ نہ ہوا تو فوجی تنازعہ ناگزیر ہو سکتا ہے۔ اس دوران، ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے سعودی ولی عہد سے ملاقات میں اپنے جوہری پروگرام کی شفافیت کا یقین دلایا ہے۔ 12 اپریل کو ہونے والے ان مذاکرات کے نتائج نہ صرف ایران اور امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہوں گے، کیونکہ یہ خطے کے مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔



بھارت ایکسپریس اردو، ہندوستان میں اردوکی بڑی نیوزویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ آپ قومی، بین الاقوامی، علاقائی، اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ سے متعلق تازہ ترین خبروں اورعمدہ مواد کے لئے ہماری ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں۔ ویب سائٹ کی تمام خبریں فیس بک اورایکس (ٹوئٹر) پربھی شیئر کی جاتی ہیں۔ برائے مہربانی فیس بک (bharatexpressurdu@) اورایکس (bharatxpresurdu@) پرہمیں فالواورلائک کریں۔ بھارت ایکسپریس اردو یوٹیوب پربھی موجود ہے۔ آپ ہمارا یوٹیوب چینل (bharatexpressurdu@) سبسکرائب، لائک اور شیئر کرسکتے ہیں۔

Also Read