Bharat Express

Yogi Government

یوپی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اس نے ہائی کورٹ کے حکم کو قبول کر لیا ہے۔ مدرسہ کی وجہ سے حکومت کو سالانہ 1096 کروڑ روپے کا خرچہ ہو رہا تھا۔ مدارس کے طلباء کو دوسرے اسکولوں میں داخل کیا جائے گا لیکن درخواست گزاروں نے دلیل دی کہ اس حکم سے 17 لاکھ طلباء اور 10 ہزار اساتذہ متاثر ہوں گے۔

مختارانصاری کی موت پران کے بھائی اورغازی پور سے رکن پارلیمنٹ افضال انصاری نے بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت یہ نہ سوچے کہ مختارکی موت سے کہانی ختم ہوگئی ہے۔ بلکہ ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے۔ 

مختار انصاری جو قتل سمیت کئی مقدمات میں سزا یافتہ تھے، باندہ جیل میں بند تھے۔ جمعرات کو وہ ہائی سکیورٹی سیل میں بے ہوشی کی حالت میں پائے گئے۔ جس کے بعد انہیں رانی درگاوتی میڈیکل کالج لے جایا گیا، جہاں ان کی موت ہوگئی۔

قافلے میں موجود مختار کے وکیل نسیم حیدر نے بتایا کہ انصاری کی لاش ان کے چھوٹے بیٹے عمر انصاری، بہو نکہت انصاری اور دو کزنوں کے حوالے کر دی گئی۔ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پولیس اہلکاروں کی 24 گاڑیاں قافلے میں شامل ہیں اور دو گاڑیاں انصاری کے خاندان کی ہیں۔

باندہ کورٹ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ بھگوان داس گپتا نے مختارانصاری کی موت کی عدالتی جانچ کے احکامات دیئے ہیں۔ ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ گریما سنگھ کو اس معاملے کی تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

مختارانصاری کی لاش کو غازی پور کے محمد آباد واقع کالی باغ قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ قبرستان مختارانصاری کے غازی پوررہائش گاہ سے نصف کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ذرائع کے مطابق، اسی قبرستان میں مختارانصاری کے والدین کی بھی قبرہے۔

مئوکے سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کی موت ہوگئی ہے۔ انہیں 28 مارچ کی رات باندہ میڈیکل کالج میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد داخل کرایا گیا تھا، لیکن اہل خانہ نے سلو پوائزن دیئے جانے کا الزام لگایا ہے۔

مئوکے سابق ایم ایل اے مختارانصاری کی موت سے متعلق ان کے اہل خانہ کی طرف سے ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ ان کے دونوں بھائی اور بیٹے کی طرف سے کئی سنگین الزام لگائے گئے ہیں۔

مئوکے سابق رکن اسمبلی مختارانصاری کی موت کی عدالتی جانچ کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ ایک ماہ کے اندراس معاملے کی جانچ رپورٹ جمع کرنے کو کہا گیا ہے۔ فیملی نے انہیں سلو پوائزن دیئے جانے کا الزام لگایا ہے۔

رضوان ظہیرتقریباً دو سال یوپی کے للت پورجیل میں بند ہیں۔ پہلے وہ بلرام پور کے ضلع جیل میں بند تھے۔ بعد میں انہیں للت پورکے جیل میں بھیج دیا تھا۔