Bharat Express

Jamia Millia Islamia

 انتظامیہ نے جس چالاکی کے ساتھ اردو کو بے گھر کرنے اور اردو کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے،ا س سے بانیان جامعہ کی روح زیر زمیں تڑپ رہی ہوگی۔ جامعہ کے درودیوار سے ،بانیان جامعہ کے اس دیار سے  اردو کو بے آبروکرنے پر معمار جامعہ کی روح  یقیناًافسردہ ہوگی۔دعا کیجئے تاکہ بانیان ِجامعہ کی روح کو قرار آجائے اور پروفیسر نجمہ اخترکو جامعہ کی روایت کا خیال۔

آج عالم یہ ہے کہ جامعہ کی وائس چانسلر ہی جامعہ کی تہذیب وثقافت اور جامعہ کی روایت سے بغاوت کررہی ہیں ۔ ایسے میں یہ سوال پھر سے اہم ہوجاتا ہے کہ کیا سچ میں نجمہ اختر اردو سے نابلد ہیں یا پھر کسی دباو میں شعوری طور پر اردو کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کررہی ہیں؟۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا برسوں پرانا دیرینہ خواب اب پورا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ صد سالہ تقریب کے موقع پرجامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرنجمہ اخترنے نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کی موجودگی میں میڈیکل کی منظوری کا اعلان کرکے جامعہ برادری کا دل جیت لیا۔

جوموجودہ وائس چانسلر ہیں ،وہ شاید جامعہ کی اس روایت سے آگاہ نہیں ہیں ۔ یا شعوری طور پر کسی دباو میں آکر یہ رویہ اختیار کیا ہے۔ جامعہ ملیہ کی تقریب میں جامعہ کے طلبا کے سامنے جو اردو بہت اچھی جانتے ہیں ،خالص ہندی میں خطاب کرنا ،میرے خیال سے کسی دباو میں کسی منصوبے کی تکمیل  کیلئے ایسا رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔

بطور وی سی، میں نے ہمیشہ اپنے طلباء اور فیکلٹی کی جانب سے ایک میڈیکل کالج کی درخواست کی ہے۔ ہم نے اس کے لیے حکومت ہند سے درخواست کی ہے، اور اب مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ جامعہ کو کیمپس میں ایک میڈیکل کالج قائم کرنے کی منظوری مل گئی ہے۔

شام 5:30 بجے یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایم اے انصاری آڈیٹوریم میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا جائے گا جہاں تقریب کے مہمان خصوصی دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر ونئے کمار سکسینہ ٹاپ کرنے والے طلبا وطالبات میں گولڈ میڈل تقسیم کریں گے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرف سے مختصر مدتی کورسز چلانے لا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے اور اہل امیدوار سرکاری ویب سائٹ کی مدد سے ان کورسز میں داخلہ لے سکتے ہیں۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ، زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ممبئی حج کمیٹی ودیگرکی جانب سے سول سروسیز امتحانات کی تیاریاں کرائی جاتی ہیں۔ حالانکہ یہاں پرمسلم طلبا کے ساتھ ساتھ غیرمسلم طلبا کی بھی تیاری کرائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کو متعدد باوقار اعزازات اور تعریفوں سے نوازا گیا ہے۔ وہ 500 بااثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ یو ایس کیپیٹل میں امریکی ایوان نمائندگان میں ان کی شراکت کے جشن میں ایک اقتباس پڑھا گیا۔

عدالت نے کہا کہ 11 ملزمان کے خلاف عدالتی نظام کو مضبوط بنانے سے پہلے تفتیشی ایجنسیوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال یا قابل اعتماد انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنی چاہیے تھیں۔