جامعہ ملیہ اسلامیہ کی قیمتی زمین کی وجہ سے وائس چانسلر نجمہ اختر سرخیوں میں ہیں۔
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک طرف اپنی اعلیٰ تعلیم کے لئے پوری دنیا میں سرخیاں بٹور رہا ہے، وہیں دوسری طرف یہ ادارہ کسی نہ کسی تنازعہ کی وجہ سے سرخیوں میں بنا رہتا ہے۔ مجلس عاملہ کے ذریعہ حال ہی میں بیش قیمت آراضی کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرکو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے متصل ہے، اس معاملے پرتنازعہ کھڑا ہوگیا ہے اوراس پرشدید قسم کے شکوک وشبہات ظاہرکئے جا رہے ہیں۔ 7 رکنی ایگزیکیٹیوکونسل (مجلس عاملہ) میں سے چیئرپرسن اورموجودہ وائس چانسلرپروفیسر نجمہ اختر کے علاوہ 4 ممبران نے ادارے کی زمین کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرکو دینے پررضامندی ظاہرکی ہے۔ اس کے برعکس مجلس عاملہ کے تین ممبران جو صدرجمہوریہ کے نامزد کردہ ہیں، انہوں نے اسےغیرقانونی اورادارے کے لئے بڑے خسارے کا باعث قراردیا ہے۔ انہوں نے مجلس عاملہ کے اس فیصلے کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہاربھی کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف ایگزیکٹیو کونسل کے جن اراکین پرالزام لگا ہے، ان کا موقف کچھ الگ ہے۔ جامعہ انتظامیہ نے اس پورے معاملے کو بے بنیاد قراردیا ہے۔
ایگزیکٹیو کونسل نے زمین دینے کی سفارش کی
ذرائع کے مطابق، مجلس عاملہ کے جن ممبران نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زمین کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرکو دینے کی سفارش کی ہے، ان میں خاص طورپرچیئرپرسن اورجامعہ ملیہ کی وائس چانسلر پروفیسرنجمہ اخترکے علاوہ فیکلٹی آف لاء کے ڈین پروفیسراقبال حسین اورپروفیسرابراہیم (ڈی ایس ڈبلیو) پیش پیش ہیں۔ اس فیصلے کی حمایت کرنے والوں میں فائن آرٹس کے ڈین پروفیسرمامون نعمانی اورسینئرموسٹ اسسٹنٹ پروفیسرراجیش بھاگوت (ڈپارٹمنٹ آف اپلائڈ سائنس اینڈ ہیومینٹیز) بھی شامل ہیں۔ صدرجمہوریہ کے نامزد کردہ جن تین اراکین مجلس عاملہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے ان میں پروفیسرسنجے شریواستو، وائس چانسلرسینٹرل یونیورسٹی آف موتیہاری، ڈاکٹرمحمد ریحان اورپروفیسرایس این داس شامل ہیں۔ ان اراکین مجلس عاملہ نے مذکورہ فیصلے کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہارکیا ہے اوراسے ادارے کے لئےعظیم خسارے کا باعث قراردیا ہے۔
نامزد اراکین نے بتایا غیرقانونی
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نامزد اراکین کا کہنا ہے کہ ذکیہ ظہیرزوجہ سید کاظم ظہیرکوبیش قیمت آراضی کا حق شفعہ دیا جانا سراسرغیرقانونی ہے۔ یہ حق جامعہ کا ہے۔ اس سے دست بردارہونا ادارے کو شدید نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہ جامعہ جیسے مرکزی تعلیمی ادارے، یہاں کے طلبہ اورساتھ ہی ملک کے عوام کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ پروفیسرسنجے شریواستو، ڈاکٹرمحمد ریحان اورپروفیسرایس این داس نے اپنے ‘نوٹ آف ڈیسنٹ’ میں واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ذکیہ ظہیرکو وراثت میں ملی آراضی کے ایک حصے کو جامعہ نے پہلے ہی خرید کراپنے قبضے میں لے لیا ہے اوروہ اس وقت جامعہ کے قبضے میں ہے، جس قطعہ آراضی کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرکو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کا حق شفعہ صرف جامعہ کے پاس ہے۔ جامعہ کے علاوہ اس زمین کو کوئی بھی فرد نہیں خرید سکتا ہے۔ اس لئے مجلس عاملہ نے اس کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرکودینے کا جوفیصلہ کیا ہے وہ سراسرغیرقانونی ہے، مجلس عاملہ کے اس فیصلے کی سرکاری ایجنسی جانچ کرے اوراس کے تہہ تک جانے کی کوشش کرے کہ وائس چانسلرپروفیسرنجمہ اخترکےعلاوہ پروفیسراقبال حسین، پروفیسرابراہیم، پروفیسرمامون نعمانی ودیگرنے جو یہ فیصلہ کیا ہے اس کے پس پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ زمین بے حد قیمتی ہے۔ اگراس کا حق شفعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مجلس عاملہ ذکیہ ظہیرکو دے دیتی ہے تواس سے ادارے کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔
زمین کو 17 کروڑ میں فروخت کرنا چاہتی ہیں ذکیہ ظہیر
واضح رہے کہ ذکیہ ظہیریہ زمین جس کا حق شفعہ جامعہ ملیہ کے پاس ہے، اسے فروخت کرنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔ وہ کسی تیسرے فرد کے ہاتھوں 17 کروڑ روپئے میں وہ اسے فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ اسی مقصد سے انہوں نے جامعہ کو درخواست دی تھی کہ انہیں یہ حق شفعہ جامعہ دے دے اورجوحق جامعہ کا ہے، اس سے وہ دستبردارہوجائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ادارے کے شدید خسارے کو مجلس عاملہ کے چاراراکین اورچیئرپرسن پروفیسرنجمہ اخترنے برداشت کرتے ہوئے اس کا فائدہ ایک فرد ذکیہ ظہیرکو پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر جامعہ برادری کو شدید حیرانی ہے اوربڑے پیمانے پرغم وغصے کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق مجلس عاملہ نے جب یہ فیصلہ کیا تو جامعہ کے المنائی یعنی یہاں کے فارغین بے چین ہوکریہ بیش قیمت زمین سرکل ریٹ پرجامعہ کو خرید کردینا چاہتے ہیں، تاکہ ادارے کو خسارہ نہ ہو، لیکن موجودہ وائس چانسلر پروفیسرنجمہ اختراوران کے چاراراکین مجلس عاملہ بالخصوص پروفیسراقبال حسین اورپروفیسرابراہیم اس امرپرآمادہ ہیں کہ جامعہ کے مفاد کو نظراندازکرتے ہوئے اس کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرکو دے دیا جائے۔
کیا ہے پورا معاملہ
بتایا جاتا ہے کہ 1952 میں کے جی سیدین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایک زمین کا تبادلہ کیا تھا، جس کے عوض جامعہ نے انہیں دوبیگھہ اور10 بسوا زمین مجلس عاملہ میں منظوری کے بعد تبادلے کے طورپراس شرط کے ساتھ دی تھی کہ اسے خریدنے کا اختیارصرف اور صرف جامعہ کے پاس ہوگا۔ تبادلے کے دستاویزمیں صاف طورپردرج ہے کہ کے جی سیدین یا ان کے وارثین میں سے کوئی اس زمین کو نہ تو فروخت کرسکتے ہیں، نہ ہی کسی کو تبادلے پردے سکتے ہیں، اس کا حق شفعہ یعنی اسے خریدنے کا حق صرف اور صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس ہوگا، جب تک جامعہ تحریری طور پراس حق شفعہ سے دستبردارنہ ہو جائے اس وقت تک وہ اسے نہ تو فروخت کرسکتے ہیں اورنہ ہی کسی کو تبادلے پردے سکتے ہیں، اس کے باوجود جامعہ کی مجلس عاملہ نے 4 اگست کو اپنی میٹنگ میں اسے فروخت کرنے کا اختیارکے جی سیدین کی ایک وارث ذکیہ ظہیرکودینے کا فیصلہ کیا ہے جو سراسرغیردانشمندانہ اورجامعہ کے لئے شدید خسارے کا باعث ہے۔ اس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے صدر جمہوریہ کے نامزد کردہ تین معززاراکین مجلس عاملہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کی جانچ ہونی چاہئے، تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے کہ آخریہ فیصلہ کیوں لیا گیا ہے۔ اس طرح یہ زمین پرائیویٹ بلڈروں اورزمین مافیا کے چنگل میں جانے سے بچ سکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب جامعہ کے الومنائی یہ زمین اپنی طرف سے خرید کرجامعہ کو دینا چاہتے ہیں توموجودہ وائس چانسلر پروفیسرنجمہ اختراورپروفیسراقبال حسین ودیگراراکین مجلس عاملہ اس کا حق شفعہ ذکیہ ظہیرکو دینے پرکیوں بضد ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پس پردہ ذاتی مفادات ہیں جن کا سامنےآنا ضروری ہے۔
جامعہ ملیہ کا کیا ہے موقف؟
اس پورے معاملے پرجامعہ انتظامیہ کا موقف مختلف ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک عہدیدارنے نام نہ شائع کرنے کی شرط پرکہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں، ان کے ذاتی مفاد وابستہ ہیں۔ جامعہ انتظامیہ پرعائد کئے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ایگزیکٹیو کونسل کی میٹنگ میں جو کچھ تبادلہ خیال کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا، وہ منٹس میں موجود ہیں۔ انہوں نے ایگزیکٹیو کونسل کے رکن ریحان خان پربھی الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس زمین سے ان کا ذاتی مفاد وابستہ ہے، وہ خود اس زمین کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، اسی لئے اس معاملے کوغلط طریقے سے الجھایا جا رہا ہے۔ حالانکہ زمین سے متعلق کئی سوال کے جواب میں وہ الزام تراشی کرتے ہوئے نظرآئے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ ملیہ کے پاس پیسے نہیں ہیں، لہٰذا وہ اتنی مہنگی زمین نہیں خرید سکتی ہے۔ اس سے متعلق جب الومنائی کے ذریعہ تجویز پیش کئے جانے سے متعلق بات کی گئی تو وہ اس پرٹال مٹول کرتے ہوئے نظرآئے۔
بھارت ایکسپریس۔