Bharat Express

Jamia Millia Islamia Medical College: جامعہ ملیہ اسلامیہ کو میڈیکل دلاکر وائس چانسلر نجمہ اختر نے جیت لیا جامعہ برادری کا دل، برسوں پرانا خواب ہوگا پورا

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا برسوں پرانا دیرینہ خواب اب پورا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ صد سالہ تقریب کے موقع پرجامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرنجمہ اخترنے نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کی موجودگی میں میڈیکل کی منظوری کا اعلان کرکے جامعہ برادری کا دل جیت لیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کو میڈیکل کالج دلانے کا سہرا نجمہ اختر اور نجیب جنگ کے سرجاتا ہے۔

صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے لوگ پوری دنیا میں اس کا نام روشن کررہے ہیں۔ یہاں کئی کورسیزایسے ہیں، جس کوعالمی شناخت حاصل ہے۔ لیکن اب تک یہاں میڈیکل کی تعلیم کا بندوبست نہیں تھا، جس کے لئے برسوں سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا یہ دیرینہ مطالبہ اب پورا ہوتا ہوا نظرآرہا ہے۔  صد سالہ تقریب کے موقع پرجامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرپروفیسر نجمہ اخترنے نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کی موجودگی میں میڈیکل کی منظوری کا اعلان کرکے جامعہ برادری کا دل جیت لیا۔

دہلی واقع وگیان بھون میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صد سالہ تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، جس کی صدارت مرکزی وزیردھرمیندرپردھان نے کی۔ اس تقریب میں بطورمہمان خصوصی نائب صدر جگدیپ دھنکڑ نے شرکت کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرنجمہ اخترنے تقریب میں اعلان کیا کہ ہمیں بہت خوشی ہو رہی ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیکل کے لئے مرکزکی دوراندیش اوربے لوث حکومت نے منظوری دے دی ہے۔ اس کے بعد پورا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ اس طرح سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کومیڈیکل ملنے کا برسوں پرانا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظرآرہا ہے۔ اس طرح سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیکل کالج کومنظوری دلانے کا سہرا پروفیسرنجمہ اخترکے سرجاتا ہے، جس کے لئے انہیں ہرجانب سے سراہا جا رہا ہے۔ نجمہ اخترنے اپریل 2019 میں جامعہ میں ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے ہی میڈیکل کالج کے لئے کوشاں تھیں۔ حالانکہ ان کی پانچ سال کی کوشش رنگ لائی اورسالوں سے ہورہی کوشش کو انہوں نے تقریباً تقریباً عملی جامہ پہنا دیا۔ سوشل میڈیا پرجامعہ برادری نے بھی اس کا خوب جشن منایا اور وائس چانسلر نجمہ اخترکو مبارکباد پیش کی۔

میڈیکل کالج کا کب اور کہاں ہوگا قیام؟

جامعہ ملیہ کو میڈیکل کالج کو منظوری ملنے کا اعلان تو ہوگیا ہے، لیکن اس معاملے میں ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیکل کالج کا کب اور کہاں قیام عمل میں آئے گا؟ اس کا خاکہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ حکومت کی جانب سے کیا میڈیکل کالج کے لئے کوئی فنڈ الاٹ کیا گیا ہے؟ کوئی زمین الاٹ کی گئی ہے؟ دہلی حکومت اوریوپی کے درمیان زمین کا معاملہ حل ہوگیا ہے؟ یا صرف میڈیکل کالج شروع کئے جانے کو منظوری دی گئی ہے؟ یہ تمام سوالات جامعہ برادری کی ذہن میں گردش کررہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کومیڈیکل کالج شروع کرنے کی منظوری تو دے دی گئی ہے، لیکن اس کے لئے الگ سے ابھی تک کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے اورنہ ہی کوئی زمین دی گئی ہے۔ بلکہ ابھی اس سلسلے میں جامعہ کی راہ بہت آسان نہیں ہوگی۔

کنوردانش علی بھی مبارکباد کے مستحق

لوک سبھا رکن پارلیمنٹ اورجامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق طالب علم کنوردانش علی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کومیڈیکل کالج دلانے اورفنڈ نہ ملنے کا معاملہ لوک سبھا میں بھی اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کواس کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے اورجامعہ کو جو فنڈ ملنا چاہئے، اس میں کٹوتی کی جارہی ہے اوراسے روک بھی دیا گیا ہے۔ لہٰذا وہ پارلیمنٹ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی آوازبن کرابھرے تھے، جس کے کنوردانش علی بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد خبرآئی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے حکومت سے کہا کہ ہم الگ سے کسی فنڈ کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں، بلکہ ہمیں میڈیکل کالج شروع کرنے کی منظوری دے دی جائے، لہٰذا جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پروجیکٹ بنا کربھیجا تھا، جسے اب منظورکئے جانے کی خبرہے۔

سالوں سے پینڈنگ میں تھا جامعہ میڈیکل کالج پروجیکٹ

دراصل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلراوردہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنرنجیب جنگ نے 2009 میں وائس چانسلرکی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد میڈیکل کالج کے لئے کوششیں شروع کردی تھیں۔ سال 13-2012 میں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اورغفارمنزل سے متصل 114 بیگھہ زمین میڈیکل کالج کے لئے ایکوائرکی تھی۔ لیکن اس وقت کی سماجوادی پارٹی کی حکومت نے اس پراعتراض کیا تھا اوراسے یوپی کی زمین قراردیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ عدالت پہنچ گیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے دہلی حکومت اوریوپی حکومت کواس مسئلے میں مل بیٹھ کرحل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس کے بعد نجیب جنگ کو 2013 میں دہلی کا لیفٹننٹ گورنربنا دیا گیا تھا، پھر دہلی اوریوپی کے درمیان ایک دو میٹنگ ہوئی، لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ ساتھ ہی 2017 میں یوپی میں یوگی حکومت کے آنے کے بعد سے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، جو آج بھی کئی سوالات جنم دے رہے ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔