جس جامعہ کے نام میں ہندی اورانگریزی کا ایک بھی حرف نہیں ہے۔ جس جامعہ کے ترانہ میں اردو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جس جامعہ کی شناخت میں ہندی اور انگریزی کا کوئی عنصر نہیں ہے ۔ جس جامعہ کے نصاب میں صرف اردو کو لازمیت حاصل ہے۔ جس جامعہ کی روایت میں اردو تہذیب کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور جس جامعہ کے بانیان نے اردو کی قابل قدر وراثت چھوڑی ہے، اسی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نے اردو کو چھوڑ دیا ہے۔ پورے ملک میں مرکزی یونیورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر بننے والی پروفیسر نجمہ اختر نے گزشتہ چار سالوں میں جامعہ کی اردو روایت سے بغاوت کی ہے۔ جس جامعہ ملیہ کے ذمہ داران نے کیمپس کے اندر اورکیمپس کے باہر اردو کلچر کو عام کرنے کی کوشش کی تھی ،آج اسی جامعہ کی وائس چانسلر کو اردو سے پرہیز ہے۔ جس جامعہ کے بانیان کو اردو میں کلیدی خطاب کرتے ہوئے فخر محسوس ہوتا تھا، آج اسی جامعہ کی وائس چانسلراردو میں خطاب کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر حالیہ صدسالہ تقاریب میں پروفیسر نجمہ اختر کے خطاب کو کیا کہا جاسکتا ہے جہاں وہ خالص ہندی اور انگریزی میں تقاریر کرتی ہیں اور اردو کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اگر ایسا کسی خاص مصلحت کیلئے ہے تو بھی ایسی کوئی تقریر،کوئی انٹرویو یا میڈیا میں کوئی بیان محترمہ پروفیسر نجمہ اختر کا شاید ہی ڈھونڈ پائیں گے جب وہ اردو میں بات کرتی ہوں ۔ تب کونسی مصلحت کا حوالہ دیں گے؟؟۔ مثال کے طور پر آپ ذیل کی ویڈیوز کو دیکھ سکتے ہیں۔
#WATCH मैं यह बताना चाहूंगी कि केंद्र सरकार ने जामिया मिलिया इस्लामिया(JMI) में मेडिकल कॉलेज शुरू करने की अनुमति दे दी है: जामिया मिलिया इस्लामिया की कुलपति नजमा अख़्तर, दिल्ली pic.twitter.com/7zlEnXk2t4
— ANI_HindiNews (@AHindinews) July 23, 2023
حیرانی والی بات یہ ہے کہ جامعہ ملیہ کی روایت اور شناخت سے دوسرے لوگ بخوبی واقف ہیں لیکن خود جامعہ ملیہ کی وائس چانسلر ہی جامعہ کی روایت سے آگاہ نہیں ہیں ،یا پھر وہ اردو سے نابلد ہیں ۔ سچ کہاہے مہتاب رائے تاباں نے کہ ” اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے”۔ شکریہ کے مستحق ہیں دہلی کے ایل جی ونئے سکسینہ ،جنہوں نے وائس چانسلر کو آئنہ دکھایا اور جامعہ کی روایت کی آبرو رکھتے ہوئے نہ صرف اردو میں بیان جاری کیا بلکہ اپنی تقریر میں بھی اردو کا خاص خیال رکھا۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اندر جس طرح سے گزشتہ چند سالوں میں اردو بیزاری کا ماحول دیکھنے کو ملا ہے ،شاید اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ گزشتہ چند دہائیوں میں دبستان دہلی کے بطور اپنا مرتبہ قائم کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہی اردو کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا،شاید ہی کسی نے کبھی ایسا سوچا ہوگا۔ اور اس سلسلے میں ایک بڑا سچ یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو بیزاری انتظامیہ کی مرہون منت ہے ۔ خاص طور پر وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کی عدم دلچسپی نے اس کو توانائی بخشی ہے۔ چونکہ گزشتہ چند سالوں میں پروفیسر نجمہ کے بیانات، تقاریر اور کلیدی خطابات کی زبان یا تو ہندی رہی ہے یاپھر انگریزی ۔ اردو کا انہوں نے دھوکے سے بھی استعمال نہیں کیا ہے۔ حالانکہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں ، اس کے باوجود علی گڑھ سے ہی پڑھ کر آئے مولانا محمد علی جوہر کے اس ادارے کی روایت کا خیال نہیں رکھا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین، حکیم اجمل خان، پروفیسر مسعود حسین،ڈاکٹر سید عابد حسین یا پھر پروفیسر مجیب رضوی ، کسی کا بھی انہوں نے اس معاملے میں پاس نہیں رکھا۔ انہوں نے تو انور جمال قدوئی، صدیق الرحمن قدوی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، تنویر احمد علوی اور گوپی چند نارنگ کابھی لحاظ نہیں رکھا۔
ان تمام معمارِ جامعہ، بانیانِ جامعہ اور وقارِ جامعہ نے اردو کو جس مضبوطی کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی عظمت اور شناخت کااہم حصہ بنایا تھا، موجودہ انتظامیہ اسی ایمانداری کے ساتھ اس کو کمزور کررہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جامعہ کے نئے نویلے دروازے سے اردو کا غائب ہونا کیا ثابت کرتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جامعہ کے پاس لگے بیشتر سرکاری بورڈ سے اردو کیوں غائب ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جامعہ کے درمیان سے گزرنے والے محمد علی جوہر مارگ کے بورڈ پر ایک مدت تک ”محمد علی حوہر مارگ” کیسے برداشت کیا گیا ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پروفیسر نجمہ نے ابھی تک اردو اخبارات کوانٹرویو کیوں نہیں دیا ؟ کیا پروفیسر نجمہ اختر کے پاس ایسا کچھ ہے جس کی بدولت وہ یہ کہہ سکتی ہیں کہ انہوں نے جامعہ کی اردو روایت کو آگے بڑھانے کیلئے کام کیا ہے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ آج جامعہ کی چہار دیواری چیخ چیخ کر اردو کا درد بیان کررہی ہے۔ اردو بیزاری کی شکایت کررہی ہے ،لیکن سننے کیلئے ناہی پروفیسر نجمہ تیار ہیں اور ناہی جامعہ کی اردو برادری ۔ چونکہ ہر کسی نے اردو کے مفادکو اپنے مفاد کی موٹی چادر سے دبا رکھا ہے۔ جس سے دھیرے دھیرے جامعہ کے اندر اردو کا دم گھٹ رہا ہے۔ایسے میں انتظامیہ نے جس چالاکی کے ساتھ اردو کو بے گھر کرنے اور اردو کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے،ا س سے بانیان جامعہ کی روح زیر زمیں تڑپ رہی ہوگی۔ جامعہ کے درودیوار سے ،بانیان جامعہ کے اس دیار سے اردو کو بے آبروکرنے پر معمار جامعہ کی روح یقیناًافسردہ ہوگی۔دعا کیجئے تاکہ بانیان ِجامعہ کی روح کو قرار آجائے اور پروفیسر نجمہ اخترکو جامعہ کی روایت کا خیال۔