Bharat Express

Israel-Gaza War

انٹونی بلنکن نے کہا کہ غزہ کو امداد کی ترسیل کے لئے غزہ کی پٹی تک سمندری پل پرکام دوہفتوں کے بعد شروع ہو جائے گا۔ ان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اب بھی اسرائیل پر زمینی گزرگاہیں کھولنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے۔

اسرائیلی فوج نے دعوی کیا ہے کہ الشفا اسپتال کو حماس کنٹرول کررہی ہے اوراسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہے۔ اہم بات ہے کہ اسرائیلی فوج نے 50 جنگجوؤں کی ہلاکت اور 180 کی گفتاری کے باوجد اپنے صرف ایک فوجی کے مرنے کی اطلاع دی ہے۔

اسرائیلی فوج نے رفح سمیت غزہ کے مختلف علاقوں میں بمباری کرکے مزید 20 فلسطینی کا قتل کردیا ہے۔ اسرائیلی بمباری منگل کے دن بہت ابتدائی گھڑیوں میں سحری کے اوقات کے نزدیک کی گئی۔ جس میں غزہ کے وسطی حصوں اوررفح کونشانہ بنایا گیا۔

اسرائیلی اہلکار کے مطابق، مذاکرات کے اس مرحلے میں کم ازکم دوہفتے لگ سکتے ہیں، جس سے حماس کے مذاکرات کاروں کو 5 ماہ سے زائد جنگ کے بعد محصورپٹی کے اندرتحریک کے ساتھ بات چیت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اسرائیل-حماس کے درمیان جاری جنگ کے درمیان فلسطین کے سابق وزیراعظم محمد شتیہ نے حال ہی میں استعفیٰ دے دیا تھا۔

امریکہ کی ایران کے ساتھ دشمنی بھی ہے، لیکن حوثی جنگجووں نے اپنے حملوں سے امریکہ کو ایران سے مدد مانگنے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ خبر ہے کہ امریکہ نے حوثی حملے روکنے کے لئے ایران کی مدد مانگی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیرجیک سلیوان نے منگل کے روزکہا تھا کہ امریکی صدرجوبائیڈن رفح میں ایسے کسی بھی اسرائیلی فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کریں گے، جس سے شہریوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہوں۔

قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ ہم کسی معاہدے کے قریب نہیں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فریقین کوایسی زبان پرمائل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ہیں، جو معاہدے کے نفاذ پرموجودہ اختلاف کو دورکرسکے۔

غزہ جنگ سے متعلق اسرائیلی شہریوں کے درمیان ہوئے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ اسرائیل کے شہری ہی جنگ سے متعلق اپنے وزیراعظم کے ساتھ نہیں ہیں۔ سروے میں 53 فیصد شہری مانتے ہیں کہ اسرائیل کے بنجامن نیتن یاہو اپنی اقتدار کے لئے غزہ جنگ کو لمبا کھینچ رہے ہیں۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے اس ہفتے کے آغازمیں کہا تھا کہ انہیں پیرتک اسرائیل اورحماس کے درمیان جاری لڑائی میں 6 ہفتے کے وقفے کے لئے معاہدہ ہو جانے کی امید تھی، لیکن وہ بتدریج اس بات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔