Bharat Express

Gyanvapi Masjid Case

اسی سال جنوری کے آخری دن گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں ہندو فریق کو پوجا کرنے کا حکم دینے والے ریٹائرڈ جج ڈاکٹراجے وشویش لکھنؤ کی ایک یونیورسٹی کے لوکپال ہوں گے۔

گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں ہندوفریق کو ملی پوجا کی اجازت کے بعد مالکانہ حق میں مسلم فریق نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج دیا گیا ہے۔

وارانسی کے گیان واپی میں واقع جامع مسجد کے تہہ خانہ میں کاشی وشوناتھ مندر ٹرسٹ کو پوجا کی اجازت دینے سے متعلق ضلع جج کے حکم کو چیلنج کرنے والی اپیلوں پر جمعرات کو سماعت ہوئی۔ جسٹس روہت رنجن اگروال نے معاملے کی سماعت کی اور فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔

مسلم فریق نے ایودھیا تنازعہ کے خطوط پر ویاس خاندان کی عرضی کو خارج کرنے کی دلیل دی۔انہوں نے کہا کہ بابری کیس میں نرموہی اکھاڑہ کی جانب سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوجا کا حق مانگا لیکن عدالت نے اسے منظور نہیں کیا۔

توقیر رضا نے الزام لگایا کہ ملک میں یکساں سول کوڈ پہلے سے نافذ ہے۔ بی جے پی کے دور سے نہیں بلکہ اس سے پہلے سے ہی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈہے، عدالت موجود ہے۔ ایک قانون ہے، پھر بھی ہمارے تمام مقدمات جو عدالت میں جاتے ہیں ان کا فیصلہ یو سی سی کے تحت ہوتا ہے۔

گیانواپی پر مسلم کی طرف سے ناراضگی اور مخالفت کے سوال پر اجے کرشنا وشویش نے کہا - میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جس کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے، وہ خوش ہوتے ہیں اور مسکراتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ لیکن جس کے خلاف ہوتا ہے وہ ناراض رہتے ہیں۔ ان کا حال جاننے کی کوشش نہیں کی۔

یوپی پولیس نے مولانا توقیر رضا خان کے جیل بھرو آندولن کوپولیس نے روک دیا ہے۔ انہیں اسلامیہ انٹرکالج کی طرف نہیں جانے دیا گیا۔ اس کے بعد مولانا توقیر رضا خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ زیادتی اور ظلم دیکھا، ہمارے لوگوں کو زبردستی روکا گیا۔ ہم نے اپنے نوجوانوں کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔

اتحاد ملت کونسل (آئی ایم سی) کی جانب سے جیل بھرو آندولن  کے لئے پرچے تقسیم کئے گئے ہیں۔ پولیس انتظامیہ نے اس کے لئے سیکورٹی کے پختہ انتظامات کئے ہیں۔

فرخ آباد کے رشید آباد واقع سینکڑوں سال پرانے رشید میاں کے مقبرے کو شیو مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت میں عرضی داخل کی گئی ہے۔ عدالت کے حکم پر اس مقبرے کا سروے کیا گیا ہے۔

منگل کو تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت میں مسجد کی انتظامی کمیٹی کے وکیل سید فرمان احمد نقوی نے سب سے پہلے اپنے دلائل پیش کئے۔ انہوں نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک بحث کی۔ اپنی بحث کے دوران انہوں نے ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے پر سوالات اٹھائے۔