Bharat Express

Bilkis Bano Case

2014 کی پالیسی کے تحت ریاستی حکومت ان جرائم کی سزا میں معافی نہیں دے سکتی جن کی سی بی آئی نے تفتیش کی ہے، یا جن میں لوگوں کو عصمت دری، قتل یا اجتماعی عصمت دری کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

جسٹس بھویاں نے سوال کیا کہ کیا سزا یافتہ شخص وکالت کر سکتا ہے؟ اس پر وکیل نے سزا کی تکمیل کا حوالہ دیا، لیکن جسٹس ناگارتنا نے اسے روکتے ہوئے کہا کہ رہائی سے متعلق انتظامی حکم کسی شخص کو سزا کی تکمیل سے پہلے جیل سے باہر لا سکتا ہے، لیکن اس کے جرم کو ختم نہیں کر سکتا۔

آج، نہ صرف گجرات حکومت نے یہ استدلال کیا کہ معافی قانونی تھی اور اسے قانون کے تحت جانچنے کے لیے درکار تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا گیا تھا، بلکہ اس نے سزا کے اصلاحی نظریہ کو بھی پیش کیا۔ریاستی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے بنچ نے پوچھا کہ اس معافی کا مقصد کیا ہے؟

شوبھا گوپتا نے بار بار بنچ سے پوچھا کہ کیا وہ مجرم جو اس جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ جس طرح سے انہوں نے اسے انجام دیا ہے۔کیا وہ ان کے ساتھ دکھائی گئی نرمی کے مستحق ہیں؟ صوابدیدی حکم وغیرہ کے علاوہ، کیا وہ کسی نرمی کے مستحق ہیں؟

گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کرنے کے الزام میں 11 افراد قصوروار پائے گئے تھے۔ ان کو 15 اگست 2022 کومعافی پالیسی کی بنیاد پررہا کیا گیا تھا۔ پھراس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل ہوئی تھی۔

گجرات 2002 کے فسادات کے وقت بلقیس بانو اجتماعی آبروریزی معاملے کے 11 قصورواروں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی۔ تاہم سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت کی تاریخ 17 جولائی طے کی ہے۔

بلقیس بانو اجتماعی آبروریزی معاملے میں 11 قصورواروں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں آج سماعت ہونے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے 9 مئی کو معاملے میں سماعت ہوئی تھی۔ تب ایک ملزم عدالت میں پیش نہیں ہوا تھا، اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے معاملے کا نوٹس نہیں ملا۔

بلقیس بانو کی عرضی پر سماعت میں ہو رہی تاخیر سے متعلق عدالت نے مجرمین کے وکیل سے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ بینچ یہ سماعت کرے۔

بلقیس بانو کیس کے قصورواروں کی رہائی کے خلاف عرضی میں سپریم کورٹ 2 مئی کو آخری سماعت کرے گا۔ عدالت نے اس دوران کہا کہ ایسے معاملوں میں عوام کے مفاد کو دھیان میں رکھنا چاہئے۔