بلقیس بانو نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ان 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو جنہوں نے اس کے ساتھ وحشیانہ اجتماعی عصمت دری کی تھی اور اس کے پورے خاندان کو قتل کیا تھا، انہیں منسوخ کیا جانا چاہیے۔بلقیس کی وکیل شوبھا گپتا نے عرض کیا کہ یہ واقعہ اتنا تکلیف دہ تھا کہ آج بھی بلقیس مردوں کا سامنا کرنے سے ڈرتی ہے، ہجوم میں یا پھر اجنبی لوگوں کے کا سامنا کرنے سے خوف آتاہے۔ ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔ ہم نے سوچا کہ یہ لڑائی ختم ہوگی ۔لیکن پھر ان مجرموں کو رہا کردیا گیا۔
شوبھاگپتا نے جسٹس بی وی ناگرتھنا اور اجول بھوئیان کی بنچ کو بتایا کہ بلقیس کے ساتھ متعدد بار اجتماعی عصمت دری کی گئی جبکہ وہ اس دوران پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔ اس کے پہلے بچے کو پتھر مار کر مارا گیا۔ اس کی ماں اور ایک بھانجی کے ساتھ بھی اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی۔گیارہ مجرموں کو 2002 کے فسادات کے دوران بلقیس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ گجرات حکومت نے انہیں گزشتہ سال 15 اگست کو مرکز کی منظوری سے رہا کردیا تھا جس کے بعد معاملہ پھر سے کورٹ میں پہنچا ہے۔
بلقیس بانو نے سی پی آئی لیڈر سبھاشنی علی، ترنمول ایم پی مہوا موئترا اور دیگر کے ساتھ مجرموں کی سرکاری معافی کوعدالت میں چیلنج کیا ہے، جس کی سماعت اب بنچ کر رہی ہے۔ بنچ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئےگپتا نے کہا کہ 14 افراد کو لوٹ مار کرنے والے گروہ نے ہلاک کیا تھا اور مناسب شناخت کے بعد 11 کو سیشن کورٹ نے صحیح طور پر مجرم قرار دیا تھا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی، جس کی بالآخر سپریم کورٹ نے توثیق کی تھی۔ گپتا نے کہا کہ مجرموں نے بلقیس کی درخواست کے باوجود اس کے بچے کو پتھر سے کچل دیاتھا۔
“جرم کی نوعیت اتنی بھیانک اور سفاکانہ تھی کہ بلقیس کو حاملہ ہونے کے دوران بے دردی سے گینگ ریپ کیا گیا۔ بلقیس کے پہلےبچے کو پتھر سے ٹکردے کرمار دیا ۔ بلقیس کی ماں کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ایک بھانجی کے ساتھ بھی اجتماعی زیادتی کی گئی۔ درخواست گزار کے چار نابالغ بہن بھائیوں کو قتل کر دیا گیا۔اس نے (بلقیس) اپنے پہلے بچے کو پتھر پر تڑپتے ہوئے مرتے دیکھا۔ حالانکہ وہ التجا کرتی رہی کہ وہ ان کے لیے بہن جیسی ہے۔ اس لیےکہ وہ ان سب کو جانتی تھی۔ کیونکہ وہ اسی علاقے سے تھے۔ وہ ان لوگوں کو جانتی تھی، گپتا نے مجرموں کی شناخت سے متعلق سوالات کے جواب میں بنچ کو بتایا۔ گپتا نے مزید کہا کہ وہ خون کے پیاسے تھے۔ وہ مسلمانوں کا پیچھا کرتے رہے۔ بنچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس ناگارتھنا نے پوچھا کہ کیا عدالتوں کے ذریعہ کوئی ایسا نتیجہ نکلا ہے کہ یہ جرم “شازونادر” مقدمات کے زمرے میں آتا ہے جو سزائے موت کے مستحق ہیں۔
شوبھا گوپتا نے بار بار بنچ سے پوچھا کہ کیا وہ مجرم جو اس جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ جس طرح سے انہوں نے اسے انجام دیا ہے۔کیا وہ ان کے ساتھ دکھائی گئی نرمی کے مستحق ہیں؟ صوابدیدی حکم وغیرہ کے علاوہ، کیا وہ کسی نرمی کے مستحق ہیں؟ گپتا نے تاہم نشاندہی کی کہ اس سے قبل تین ججوں کی عدالت عظمیٰ کی بنچ نے متاثرین کو معاوضہ دینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کیس نے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے اور جرم غیر معمولی نوعیت کا تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا معاوضے کی ہدایت کی تعمیل کی گئی ہے، تو وکیل نے جواب دیا کہ “ایک حد تک”، لیکن اس کی وضاحت نہیں کی۔ گپتا نے نشاندہی کی کہ سی آر پی سی کی دفعہ 432 کے تحت سی بی آئی نے ایک ٹرائل جج کی رائے طلب کی تھی جس نے ملزم کو سزا سنائی تھی۔ جج نے تفصیلی رائے دیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی رعایت یا معافی کے حقدار نہیں ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔