Bharat Express

جماعت اسلامی نے بجٹ 2024 کو غریبوں، پسماندہ طبقات اوراقلیتوں کےلئےمایوس کن قراردیا

جماعت اسلامی ہند کا مطالبہ ہے کہ صحت کے شعبے کے لیے جی ڈی پی کا 4 فیصد اور تعلیم کے لیے 6 فیصد مختص کیا جانا چاہئے۔ بجٹ کو دیکھتے ہوئے حکومت کا نعرہ ’’ سب کا وکاس‘‘ کھوکھلا لگ رہا ہے، کیونکہ اقلیتوں کے لیے بنائی گئی اسکیموں کی بجٹ میں بہت کمی محسوس کی گئی۔

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئرمحمد سلیم (فائل فوٹو)

نئی دہلی: ’’مرکزی حکومت کا حالیہ بجٹ ہندوستان کے غریبوں، پسماندہ طبقات، دلتوں، آدی واسیوں اورمذہبی اقلیتوں کے لیے مایوس کن ہے۔ بجٹ ملک کی اقتصادی پالیسیوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ یہ معاشی چیلنجوں کو مستحکم کرنے اور عام آدمی کی ضروریات کو پوری کرنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے، اس لئے بجٹ کوعام آدمی کے فائدے کے لئے ہونا چاہئے۔‘‘ یہ باتیں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئرنے میڈیا کوجاری اپنے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ’’گرچہ اس بجٹ میں چند مثبت پہلو ہیں، جیسے طویل مدتی قرض کی پائیداری کے لیے مالیاتی حکمت عملی اختیارکرنے کی پابندی۔ پچھلے سال ٹیکس میں 1.4 اضافے کے باوجود مفروضہ ٹیکس میں اضافہ کو 1 پر رکھا گیا ہے۔ اثاثوں کی قیمتوں کو اقتصادی اصولوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے متعدد شعبوں میں کسٹم ڈیوٹی میں کمی یا خاتمہ کیا گیا ہے، یقینا یہ کچھ راحت کی بات ہے مگر برآمداتی اشیا کے ٹیکسوں کوکم کرنے سے ہندوستانی برآمدات کومزید مسابقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

صحت کے لئے جی ڈی پی کا 4 اورتعلیم کے لیے 6 فیصد مختص کرنے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ ان مثبت پہلوؤں کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ حالیہ بجٹ 2024-25 غریبوں، پسماندہ، ایس سی، ایس ٹی اوراقلیتوں کے لئے کوئی راحت کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ بجٹ معاشرے کے ایک طبقے ہی کوفائدہ پہنچانے والا ہے۔ صحت کے لئے مختص رقم میں اضافہ کے باوجود اب بھی یہ جی ڈی پی کا 1.88 فیصد ہی ہے۔ اسی طرح تعلیم کے بجٹ میں اضافے کے باوجود جی ڈی پی کا محض 3.07 فیصد ہی مختص کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کا مطالبہ ہے کہ صحت کے شعبے کے لیے جی ڈی پی کا 4 فیصد اور تعلیم کے لیے 6 فیصد مختص کیا جانا چاہئے۔ بجٹ کو دیکھتے ہوئے حکومت کا نعرہ ’’ سب کا وکاس‘‘ کھوکھلا لگ رہا ہے، کیونکہ اقلیتوں کے لیے بنائی گئی اسکیموں کی بجٹ میں بہت کمی محسوس کی گئی۔  یہ افسوس کی بات ہے کہ اقلیتی امورکی وزارت کے لئے کل بجٹ کا محض 0.06 فیصد ہی رکھا گیا ہے۔ جبکہ اسے کم سے کم 1 فیصد ہونا چاہئے‘‘۔

منریگا کومسلسل نظراندازکیا جانا افسوسناک: جماعت اسلامی

پروفیسرمحمد سلیم نے کہا کہ ’’سرکاری خزانے میں خاطرخواہ اضافہ کے باوجود بجٹ میں contractionary اپروچ کا مظاہرہ ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اورعدم مساوات کی صورت حال پیدا کرسکتا ہے۔ سماجی شعبے کے لئے مختص رقم میں کمی کی گئی ہے۔ مثال کے طورپربے روزگاری بہت ہے، پھربھی منریگا کے لیے رقم میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ منریگا کومسلسل نظراندازکرنا افسوسناک ہے۔ اسی طرح مختلف سبسڈیزمیں کٹوتی کی گئی ہے، جیسے فوڈ سبسڈی، فرٹیلائزرسبسڈی اورپٹرولیم سبسڈی وغیرہ۔ یہ مناسب نہیں ہے۔  مجموعی طورپریہ بجٹ کارپوریٹس کے حق میں محسوس ہوتا ہے۔ جبکہ کارپوریٹ ٹیکس ریوینیو17 فیصد ہے جو کہ انکم ٹیکس 19 فیصد سے کم ہی ہے۔

ٹیکس کا زیادہ بوجھ اب بھی غریب اور متوسط طبقے پر: انجینئر سلیم

انجینئرمحمد سلیم نے کہا کہ مطلب صاف ہے کہ ٹیکس کا زیادہ بوجھ اب بھی غریب اور متوسط طبقے پرہی ہے۔ ’’نئی روزگارپروتساہن یوجنا‘‘ کے تحت روزگارپیدا کرنے کے نام پر کارپوریٹس کوبھاری سبسڈی دی جارہی ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ فلاح وبہبود کے نام پر فنڈز فراہم کرنے کےلئے بدعنوانی پرلگام کسنے کے ساتھ ہی امیروں پرڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ اوران ڈائریکٹ ٹیکسوں کوکم کرکے مہنگائی کوکم کرنے کی حکمت اختیارکی جانی چاہئے۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ دلتوں، پسماندہ طبقات، ایس سی، ایس ٹی اوراقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے خصوصی اقدامات کرے۔ ہمارے بجٹ کا 19 فیصد سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ ہمیں قرض سے بچنا چاہئے اوراپنی معیشت کوسود سے پاک بنانے کی طرف بڑھنا چاہئے۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلا سودی مائیکروفنانس اورسود سے پاک بینکنگ نظام کوفروغ دے۔ اس سے جہاں معیشت کوترقی ملے گی، وہیں روزگارکے مواقع پیدا ہوں گے اورسماجی عدم مساوات میں کمی آئے گی۔

 بھارت ایکسپریس