Iran US relationship: گلوبل آرڈر اس قدر تیزی سے بدل رہا ہے کہ کون ملک کب کس کا دوست اور کس کا دشمن ہوجائے ،کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ دوستی اور دشمنی کے بیچ عالمی سطح پر ایک اور نئی تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے جس میں دو دشمن ملک ایک دوسرے کے قریب آتے نظرآرہے ہیں ۔ دراصل اسرائیل کو ایسا لگنے لگا ہےکہ امریکہ خفیہ طور پر ایران کے ساتھ رابطے میں ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات بہت جلد بحال ہوسکتے ہیں ۔ حالانکہ دنیا ابھی تک یہی مانتی ہے کہ ایران اور امریکہ کے مابین مخاصمت اپنے شباب پر ہے ۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کررکھی ہیں ۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی لمبی فہرست ہے اور ایران کی جانب سے امریکہ کو لعن طعن کی ایک مکمل ڈائری ہے ۔ لیکن ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی اندرون خانہ ایسا کچھ چل رہا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل بہت ہی زیادہ پریشان ہے ۔ اسرائیل کی پریشانی اس لئے بھی جائز ہے چونکہ ایران اور اسرائیل دونوں ایک دوسرے کو اپنا سب سے بڑا دشمن مانتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف قدم یا ہتھیار اٹھانے کا ایک بھی موقع ضائع نہیں کرتے ۔وہیں دوسری جانب امریکہ کو اسرائیل اپنا خاص دوست مانتا ہے جس کے کاندھے کا استعمال کرکے اس نے ایران کے خلاف طرح طرح کے جال بننے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ ایسے میں اگر ایران اور امریکہ صلح کی طرف بڑھتا ہے تو پھر اسرائیل کے پیٹ میں زور کا درد اٹھنا بنتا ہے۔
دراصل اسرائیل کےموثر عبرانی اخبار’ یدیعوت احرونوت‘ نے اسرائیل کے سینیر حکام کا حوالہ دیتے ہوئے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان معاہدے تک پہنچنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کے لیے پریشانی کا سبب بننے والی اس خبر کے بیچ اب اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ آئندہ جمعرات کو اپنے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ خبر ہے کہ یہ ملاقات کسی یورپی ملک میں ہو گی مگر اس کے بارے میں اخبار نے وضاحت پیش نہیں کی ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے وزراء کو امریکا میں امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی روک دیا ہے، جو اپنے آپ میں یہ ثابت کرتا ہے کہ دھواں یونہی نہیں اٹھ رہا ہے۔ اخبارکےرپورٹس کے مطابق جب تک انہیں وائٹ ہاؤس کی طرف سے باضابطہ دعوت نامہ موصول نہیں ہو جاتا اس وقت تک اسرائیلی وزراء امریکہ نہیں جائیں گے۔اسرائیلی حکام کے مطابق نیتن یاہو کو امریکا کی دعوت نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح کا دورہ ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو برباد کر سکتا ہے۔ چونکہ ایک طرف ایران سے دوستی کی بات ،دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ چائے نوشی،یہ ایران کو قطعی منظور نہیں ہوگا،اسی سے بچنے کیلئے امریکہ فی الحال اسرائیل سے دوری بنانے میں عافیت محسوس کررہا ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکہ ان دنوں ایران کے ساتھ نہ صرف جوہری فائل سے متعلق بالواسطہ بات چیت کر رہا ہے بلکہ قیدیوں کے تبادلے اور تمام شعبوں میں “در پردہ مفاہمت” تک پہنچنے کی بھی کوشش کررہا ہے۔ اندر کی خبر یہ بھی ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ ایک نیا طویل مدتی معاہدہ چاہتا ہے لیکن اسرائیل کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تہران انتظامیہ اس سے اتفاق نہیں کرے گی اور 2015ء کے جوہری معاہدے کی واپسی کا مطالبہ جاری رکھے گی۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ قیدیوں کی رہائی اور ایرانی فنڈز کے اجراء پر معاہدے طے پا جائیں جو تہران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ اس کے بدلے میں ایران کو کئی شرائط پوری کرنی ہوں گی جن میں جوہری تنصیبات پر کنٹرول بحال کرنے اور یورینیم کی افزودگی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ وعدہ بھی شامل ہے۔ حالانکہ اسرائیل اس بات کو تسلیم کررہا ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ سے زیادہ سخت موقف اب یوروپ اختیار کررہا ہے اور یہ تب ہوا ہے جب سے روس یوکرین جنگ میں ایران نے کھل کر روس کی مدد کی ہے اور یوکرین کے خلاف جاکر روس کا ساتھ دیا ہے۔ ایران کے اس فیصلے نے گرچہ یوروپ کی دشمنی کو ہوا دے دی ہے لیکن امریکہ کے ساتھ سرد جنگ قریب قریب ختم ہونے والی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اسرائیل کو امریکہ کے بجائے یورپین سہارے کی تلاش ہوگی اور شاید اسرائیل نے اس سمت میں سوچنا بھی شروع کردیا ہے۔ چونکہ اسرائیل اس بات سے بحسن وخوبی واقف ہے کہ امریکہ اپنے مفاد کیلئے کسی بھی دوست کو کہیں پر بھی قربان کرسکتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔