اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں واقع خوش پور گاؤں کے نیہا پبلک اسکول میں ایک بچے کو دوسرے بچے سے پٹوانے کا واقعہ انتہائی شرمناک ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو اور دیگر معتبر میڈیا رپورٹوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اسکول کے کلاس روم میں ایک ٹیچر کی موجودگی میں طلباء ایک ایک کرکے آتے ہیں اور ایک مسلم لڑکے کے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں۔ ویڈیو سے یہ اندازہ بھی ہوتاہے کہ ملزم ٹیچر نے دیگر مسلم طلباء کے خلاف نفرت آمیز الفاظ کہے اور ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرنے کی دھمکی دی جو اس متاثرہ لڑکے ساتھ کیا گیا۔ اس اسکول اور ملزم ٹیچر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ یہ باتیں مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے چیئرمین پروفیسر سلیم انجینئر نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ”ایک معروف نیوز پورٹل کے مطابق لڑکے کے والد پر اسکول ٹیچر کے خلاف پولیس میں شکایت نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق یہ اسکول ایک نجی رہائشی عمارت میں چلایا جارہا ہے، لہٰذا اس بات کی جانچ ہونی چاہئے کہ یہ اسکول متعلقہ’اسٹیٹ اسکول بورڈ‘ کے تمام مطلوبہ معیارات اور اصولوں پر عمل پیرا ہے یا نہیں“۔
پروفیسر سلیم نے مزید کہا کہ ’این سی پی سی آر‘ کو معاملے کی تحقیقات کرنی چاہئے اور جو بھی نتائج سامنے آئیں، انہیں عام کرنا چاہئے۔ اس معاملے میں بچوں کے حقوق کی شدید خلاف ورزی کی گئی ہے لہٰذا فوری طور پر فیصلہ کن کارروائی ہونی چاہئے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی نفرت کے ماحول سے اب اسکول کے چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں، اور اس نفرتی ماحول کا شکار ہورہے ہیں۔ آج اسلام فوبیا اسکولوں اور کالجوں کے کیمپس میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ حکومت اسے ایک سماجی برائی مان کر ختم کرنے کے لئے قوانین کا مسودہ تیار کرے اور اس لعنت سے سرکاری طور پر نمٹنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ پولیس،’این سی پی سی آر‘ اور عدالتوں کو ایسے اسکول اور ٹیچر کے خلاف مقدمہ چلا کر بچوں کے حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزی کا از خود نوٹس لینا چاہئے۔
بھارت ایکسپریس۔