Bharat Express

Jamat-E-Islami Hind

امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا ’’یہ بل جس نے اب قانونی حیثیت حاصل کر لی ہے، مذہبی امتیازاورجانبداریت پرمبنی ہے، اسے اقلیتی حقوق کے لیے ایک سیاہ باب کے طور پر جانا جائے گا۔ یہ قانون ملک میں مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ ہے۔

مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ واقعات اورنفرت انگیزجرائم" کے حوالے سے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئر محمد سلیم نے کہا، "ہم اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور فرقہ وارانہ جرائم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

سید تنویر نے کہا کہ ’’ اردو طلباء ’ این آئی او ایس‘ کے اردو مرکز میں تعلیم حاصل کیے بغیر بھی امتحان دینے کے قابل ہو سکتے ہیں کیونکہ ملک میں کئی تنظیمیں اور تعلیمی ادارے ان طلباء کو آن لائن کوچنگ فراہم کرتے ہیں

حکومت کو بجٹ 2025-26 کو وسیع تر مفاد میں دیکھنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس بجٹ میں  کل اخراجات میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ کی کمی ہوئی ہے۔ اس سے سماجی اور فلاحی اخراجات پر منفی اثر پڑے گا اور غریبوں کی حالت مزید خراب ہوگی۔

مرکز ی حکومت اور اتر پردیش حکومت کو ذمہ داری لینا چاہیے اور اپنے انتظامات میں موجود خامیوں کو فوری طور پر دور کرنا چاہیے۔ عام  عقیدت مندوں کی زندگی وی آئی پیز اور خصوصی مہمانوں کی طرح دیکھ بھال اور تحفظ کی مستحق ہے۔

جماعت اسلامی ہند نے منریگا جیسے پروگرام شروع کرنے، اقلیتی امور کے بجٹ میں اضافہ کرنے اور اقلیتوں کے لئے مختص اسکالر شپ کو دوبارہ بحال کرنے سمیت 16 اہم تجاویزپیش کی ہیں۔

مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن کے ہندی ترجمہ کے ایپ کے اجرا کی تقریب سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند کی صدارت میں منعقد ہوئی - ہندی ترجمہ قرآن اپلی کیشن کی تیاری کا یہ کام جماعت اسلامی ہند کے ادارہ ’اسلامی ساہتیہ ٹرسٹ‘ کے ذریعہ انجام دیا گیا ہے۔

مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری سید تنویراحمد کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم خصوصاً اُن طلبہ کے لئے نقصان دہ ہوگی، جوکمزورطبقات سے تعلق رکھتے ہیں اورسرکاری اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں۔

مذہبی مقامات کا تحفظ قانون (1991) پر بات کرتے ہوئے نائب امیر جماعت جناب ملک معتصم خان نے کہا کہ ’’ اس قانون کا نفاذ، فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے اور تمام مذہبی مقامات کو ان کی 15 اگست 1947 والی حیثیت پر برقرار رکھنے کی ضمانت کے طور پرہوا تھا تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھا جاسکے۔

وفد شہر کے با اثر اور جہد کاروں سے  اور وکلا سے بھی ملا جو ان مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں یا قانونی کارروائی کے لیے سرگرم ہیں۔وفد کی ملاقات مسجد کی نئی کمیٹی اور بعض پرانی کمیٹی کے ممبران سے بھی ہوئی، وفد نے تلقین کی کہ کسی بھی طرح کا اختلاف ہمیں کمزور کرے گا۔