Bharat Express

Jamat-E-Islami Hind

ملک معتصم خاں نے ’فارنر ٹربیونل‘ کے کام کاج کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس ٹربیونل پر من مانی اور سیاست سے متاثر ہوکر فیصلے کرنے کا شبہ کیا جاتا رہا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیرملک معتصم خاں اور مرکزی سکریٹری شفیع مدنی نے تری پورہ کے رانیربازارمیں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد پرگہرے رنج وافسوس کا اظہار کیا ہے اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کیرالہ متاثرہ برادریوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر قدم پر ان کے تعاون کے لیے تیار ہے۔ اس پریس کانفرنس میں نائب امیر حلقہ کیرالہ ایم کے محمد علی، سکریٹری شہاب پوکو ٹور اور ریلیف سیل کے کنوینر شبیر کوڈولی بھی شامل تھے۔

امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’ یہ ترمیم، استعماری قوانین سے متاثر نظر آتی ہے جس میں ضلع کلکٹر کو حتمی اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کی شھادت سے اس تاریخ میں ایک نئے عظیم الشان باب کا اضافہ ہوا ہے۔شہادتوں سے تحریکیں کم زور نہیں ہوتیں بلکہ نئی قوت اور جولانی حاصل کرتی ہیں۔

جماعت اسلامی ہند نے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے بعد مسلمانوں پرہونے والے تشدد اورموب لنچنگ پر ناراضگی کا اظہارکیا ہے۔ ساتھ ہی حکومت سے راج دھرم نبھانے کی اپیل کی ہے۔

پروفیسر سلیم نے مزید کہا کہ ’’ یہ واقعہ ضلعی انتظامیہ کی ناکامی کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ ’ست سنگ‘ میں جمع ہونے والے اتنے بڑے ہجوم کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکی اور نہ ہی ہنگامی حالات پیدا ہونے کی صورت میں مضبوط پیشگی منصوبہ بندی کرسکی ۔

پروفیسر سلیم نے کہا کہ ’’ ان نئے قوانین میں کئی مسائل ہیں۔ انہیں انتہائی متنازع طریقے سے منظور کروایا گیا تھا۔ یہ منظوری ایسے وقت میں ہوئی تھی جب  دسمبر 2023 میں اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی بڑی تعداد کو معطل کردیا گیا تھا ۔ اسی دوران برائے نام بحث کے بعد انہیں منظور کرلیا گیا۔

پروفیسر دوبے نے بابری مسجد انہدام کے بعد 1992-93 میں ملک میں ہر طرف پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات کے فوراً بعد جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داروں سمیت فکرمند شہریوں کے ساتھ مل کر ’ فورم فار ڈیموکریسی اینڈ کمیونل ایمٹی ( ایف ڈی سی اے) کے قیام اور اسے مضبوط بنانے میں مخلصانہ کوششیں کیں

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ اس بارپارلیمانی انتخاب میں عوام کا مینڈیٹ بہت واضح ہے۔ یہ مینڈیٹ آمریت کے مقابلے میں جمہوریت، فسطائیت وفرقہ پرستی کے بالمقابل دستوری اقدار، نفرت وتفریق کے مقابلے میں رواداری وتکثیریت اورتکبرکے بجائے انکساری کے حق میں ہے۔