جماعت اسلامی ہند کی مرکزی تعلیمی بورڈ نے حکومت سے آر ٹی ای ترمیم پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے رائٹ ٹو ایجوکیشن (آرٹی ای) قانون میں ترمیم کے ذریعہ طے کیا ہے کہ اب جماعت پنجم (پانچویں) اورہشتم (آٹھویں) کے امتحانات میں ناکام ہونے والے طلبہ کواگلی جماعتوں میں داخلے کا اہل قرارنہیں دیا جائے گا۔ اس ترمیم کی مرکزی تعلیمی بورڈ نے مذمت کی ہے۔ مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری سید تنویراحمد کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم خصوصاً اُن طلبہ کے لئے نقصان دہ ہوگی، جوکمزورطبقات سے تعلق رکھتے ہیں اورسرکاری اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں۔ حکومت کواس قانون میں ترمیم کرنے کے بجائے کچھ اہم نکات پرغوراورضروری اقدامات کرنا چاہئے تاکہ تعلیم کا معیاربہترہوسکے۔ سب سے پہلے، حکومت کواس بات کویقینی بنانا چاہئے کہ اسکولوں میں تدریسی عمل کوبہتربنانے کے لئے اساتذہ کومعقول تربیت دی جائے تاکہ وہ کلاس رومزکوایک ایکٹیولرنرس کلاس روم (Active Learners Classroom)میں تبدیل کرسکیں۔ اس تربیت کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اساتذہ جوائے فل لرننگ (Joyful Learning) کے تصور کو عملی طور پر نافذ کریں، جس سے طلبہ کی تعلیم کا معیار بلند ہو سکے۔
تعلیمی نظام میں چائلڈ سینٹرڈ (طلبہ پرمرکوز) ایجوکیشن سسٹم کومکمل طورپراپنانا چاہئے۔ اس کومؤثر بنانے کے لیے کنٹنیوس اینڈ کمپرہنسیو ایولیوشن سسٹم (Continuous and Comprehensive Evalution System) اختیارکیا جانا چاہئے، جس سے طلبہ کی ہمہ جہت ترقی ہوسکے۔ موجودہ امتحانی نظام میں زیادہ ترتوجہ بچوں کی یادداشت پرہوتی ہے، جوان کی حقیقی سیکھنے کی صلاحیتوں کو محدود کرتی ہے۔ نئے نظام میں طلبہ کی سیکھنے کی صلاحیت اورعملی زندگی کے لئے تیاری پر زور دیا جانا چاہیے۔ اس پالیسی کا منفی اثر خاص طور پر سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ پر پڑ سکتا ہے، کیونکہ یہاں اکثریت غریب گھرانوں کے بچوں کی ہوتی ہے جو دیگر سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ایسے اسکولوں میں طلبہ کے لیے اضافی ٹیوٹرنگ اور دیگر معاون خدمات کی کمی ہوتی ہے، جس کے باعث ان کا تعلیمی معیار کم رہتا ہے۔ اس صورت میں، اس طرح کی پالیسی پسماندہ طبقات کے بچوں کو مزید پسماندہ کر سکتی ہے۔پالیسی میں اس ترمیم کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اتنا ہی نہیں جوطلبہ فیل ہوجاتے ہیں، انہیں اسکولوں اورسماج میں ایک لیبل لگ جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی کمزوری کا شکارہو سکتے ہیں۔ یہ پالیسی تبھی مؤثرہوسکتی ہے، جب تمام طلبہ کے لئے یکساں سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس پالیسی کے ذریعہ پرائیویٹ خوانگی اسکولوں کی اہمیت میں اضافہ ہوگا جبکہ سرکاری اسکولوں کی طرف عوام کا رجحان کم ہوتا جائے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ تعلیم کے میدان میں وہ ایسے اقدامات سے پرہیزکرے، جوتعلیم کی نجکاری (پرائیوٹائزیشن) کوفروغ دیتے ہیں۔ 14 سال کی عمرتک بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے۔ لہذا، ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس پالیسی پرنظرثانی کرے اور سرکاری اور کمزوراسکولوں میں تعلیمی معیارکو بہتربنانے پرتوجہ دے۔ کنٹنیوس اینڈ کمپرہنسیوایولیوشن سسٹم (سی سی ای) کواپنایا جائے اورطلبہ کو ایسا لائق بنایا جائے کہ وہ اپنی عمرکے مطابق مؤثرتعلیم حاصل کرسکیں۔
بھارت ایکسپریس۔