Bharat Express

Waqf Amendment Bill 2024

درخواست گزاروں کو اہم نکات پر اتفاق کرنا چاہیے۔ ان اعتراضات کو نوڈل کونسل کے ذریعے حل کریں۔ عدالت نے مرکز کو جواب دینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔ تب تک وقف بورڈ اور کونسل میں کوئی نئی تقرری نہیں ہوگی۔

سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانونی پر عبوری فیصلہ سنا دیا ہے اور اس فیصلے کے تحت مرکزی حکومت کو ایک ہفتے میں تفصیلی جواب دینے کا موقع دیا گیا ہے تب تک اس نئے ترمیمی قانون کے تحت کوئی تقرری نہیں ہوگی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی تین رکنی بنچ وقف ترمیمی قانون پر آج پھر سماعت شروع ہوچکی ہے۔ اور آج ایسا ممکن ہے کہ سپریم کورٹ آج اس قانون سے متعلق عبوری فیصلہ بھی صادر کرے۔

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے نوٹیفکیشن کو روکنے کے لیے عبوری راحت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔ ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک آئین کی بالادستی، سیکولرازم، جمہوریت اور وقف کے تحفظ کے لیے اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے:مولانا ارشد مدنی

جموں و کشمیر اسمبلی کے اسپیکر نے کہا کہ وقف قانون کا معاملہ عدالت میں زیر غور ہے، اس لیے اس پر بحث نہیں ہو سکتی۔ نیشنل کانفرنس کے اراکین اسمبلی نے اس قانون کے خلاف ایوان میں نعرہ بازی بھی کی۔

وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد اب قانون بھی بن گیا ہے۔ اسے صدرجمہوریہ کی منظوری مل گئی ہے۔ راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 128 ووٹ اور خلاف میں 95 ووٹ پڑے تھے۔ لوک سبھا میں اس کے حق میں 288 اور اپوزیشن میں 232 ووٹ پڑے تھے۔ دونوں ایوانوں میں اپوزیشن پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔

میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے تیجسوی یادو نے کہا کہ ’’اگر بہار میں ہماری حکومت آئی تو اس بل کو ہم کچرے کے ڈبے میں پھینک دیں گے۔ وقف کی لڑائی ایوان، سڑک اور عدلیہ تک جائے گی۔‘‘

سنجے راؤت نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی نے شیوسینا یو بی ٹی کے ساتھ ساتھ نوین پٹنایک کی قیادت والی بی جے ڈی پر بھی دباؤ بنایا تھا اور لوک سبھا میں وقف بل پر حمایت کا مطالبہ کیا تھا۔

وقف ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد جے ڈی یو میں اندرونی اختلاف ابھرکر سامنے آئے ہیں۔ حالانکہ جے ڈی یو کے مسلم لیڈران کی پریس کانفرنس کرکے بل کا بچاؤ کیا اور دعویٰ کیا کہ پارٹی کے مشوروں کو منظورکیا گیا ہے، مگرپریس کانفرنس اچانک ختم ہونے سے ہنگامہ مچ گیا۔

ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر کے صدر مولانا محمد رحمان مدنی نے کہا کہ ہمارے ملک کی آزادی کوتقریباً اسی سال ہونے والے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماری قیادت نے نہ تعلیم میں کوئی مضبوط کام کیا اورنہ ہی دینی تربیت کی طرف توجہ دی تواس غفلت کا یہی لازمی نتیجہ ہے، جس سے ہم جوجھ رہے ہیں۔