Bharat Express

Supreme Court

سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کے فیصلے کو آئینی طور پر درست مانا ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جموں وکشمیر اپنے ملک کا اٹوٹ حصہ ہے اوروہاں آرٹیکل 370 ایک غیرمستقل التزام تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ آج کا یہ فیصلہ صرف قانونی فیصلہ نہیں، امید کی کرن ہے۔ روشن مستقبل کا وعدہ ہے اورایک مضبوط، متحد ہندوستان کی تعمیر کے ہمارے اجتماعی عزم کا ثبوت ہے۔

آرٹیکل 370 معاملے پرسپریم کورٹ نے 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ آج فیصلہ سنایا گیا ہے۔ آئیے جموں وکشمیر کے انضمام سے متعلق آرٹیکل 370 کو منسوخ کئے جانے تک  کی کہانی آپ کو بتاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ انضمام کا معاہدہ کیا تو جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم ہوگئی۔ اور وہ ہندوستان کے ماتحت ہو گیا۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے کپل سبل، گوپال سبرامنیم، دشینت دوے، راجیو دھون، دنیش دویدی، گوپال شنکر نارائن سمیت 18 وکلاء نے اپنے دلائل پیش کئے۔

جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا پر مشتمل سی جے آئی کی سربراہی والی بنچ نے کہا، "یہ تمام قانون سازی کی پالیسی کے معاملات ہیں۔" درخواست میں تمام ہائی کورٹس کو انتخابی درخواستوں پر چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی ہدایت بھی مانگی گئی ہے۔

خبر آئی ہے کہ سپریم کورٹ نے 11 دسمبر بروز سوموار کو اس پر فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں فیصلے کی تاریخ 11 دسمبر رکھی گئی ہے جس پر اب مرکزی سرکار سے لیکر جموں کشمیر کی سیاسی وسماجی شخصیات کے ساتھ ہی عام عوام کی بھی نظریں ہیں اور خاص طور پر پڑوسی ملک پاکستان بھی اس کی طرف گہر نظر رکھے ہوا ہے۔

ایڈوکیٹ شیام دیوان نے عدالت کو بتایا کہ اگر غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی گئی تو آنے والی نسلیں بھی اپنا قانونی حق طلب کریں گی جس کی وجہ سے ہندوستان کی سماجی، سیاسی، معاشی حالت پر اثر پڑے گا۔

دگ وجے سنگھ نے اس سوال کو ایک بنیادی سوال قرار دیا ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو غور کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی سابق وزیر اعلیٰ دگ وجے سنگھ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا اور سپریم کورٹ سے بھی پوچھا کہ کیا وہ ہندوستان کی جمہوریت کو بچا سکتے ہیں؟

18 نومبر کو، تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن نے ریاستی اسمبلی میں ایک خصوصی قرارداد پیش کی تاکہ ایوان سے منظور شدہ 10 بلوں پر غور کیا جا سکے اور گورنر آر این روی نے اسے واپس کر دیا۔