Bharat Express

Assam Citizenship Issue: آسام شہریت معاملہ: شہریت ایکٹ کی دفعہ 6 اے پر بحث جاری، مولانا ارشد مدنی کی جمعیۃ علماء کی طرف سے بحث کریں گے کپل سبل

ایڈوکیٹ شیام دیوان نے عدالت کو بتایا کہ اگر غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی گئی تو آنے والی نسلیں بھی اپنا قانونی حق طلب کریں گی جس کی وجہ سے ہندوستان کی سماجی، سیاسی، معاشی حالت پر اثر پڑے گا۔

 نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا کی پانچ رکنی آئینی بینچ آسام شہریت معاملے کی حتمی سماعت کررہی ہے، آج سماعت کا دوسرا دن تھا، چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سریا کانت، جسٹس ایم ایم سندریش، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشراء پر مشتمل آئینی بینچ تمام عرضداشتوں پر یکجا سماعت کررہی ہے۔ آئینی بینچ سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ 6A کی آئینی حیثیت پر سماعت کررہی ہے۔ دفعہ 6اے  کے تحت مختلف تاریخوں پر ہندوستان میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، دفعہ 6اے  کو غیر قانونی قرار دینے کے لئے مختلف تنظیموں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے جس پر سپریم کورٹ آف انڈیا کی آئینی بینچ سماعت کررہی ہے۔

ایڈوکیٹ شیام دیوان نے دی دلیلیں

آج سینئر ایڈوکیٹ شیام دیوان نے اپنی بقیہ بحث کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کہ اگرغیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی گئی تو آنے والی نسلیں بھی اپنا قانونی حق طلب کریں گی جس کی وجہ سے ہندوستان کی سماجی، سیاسی، معاشی حالت پر اثر پڑے گا۔ ایڈوکیٹ شیام دیوان نے دوران بحث مزید کہا کہ عدالت کویہ طے کرنا ہوگا کہ کٹ آف ڈیٹ کیا ہوگی اور یہ ڈیٹ طے کرنے سے قبل اوریجنل آسامیوں کے حقوق اور ان کے خدشات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔غیر قانونی تارکین وطن کی وجہ سے ہندوستان کی سالمیت کو خطرہ ہے۔ایڈوکیٹ شیام دیوان کی بحث کے اختتام کے بعد سینئر ایڈوکیٹ کے این چودھری نے عرض گذار آسام سنمیلاتا سنگھاما کی طرف سے بحث کرتے ہو ئے عدالت کو بتایا کہ آسام ایکورڈ سیاسی تصفیہ ہے جو ووٹ بینک سیاست کا نتیجہ ہے۔ کیا ہم یہ کبھی قبول کرسکتے ہیں کہ تارکین وطن کی حفاظت کرنے کے نام پر حکومت اپنے شہریوں (مقامی باشندوں) کے حقوق کو نظر انداز کردے؟ایڈوکیٹ چودھری نے مزید کہا کہ تارکین وطن کی وجہ سے 126 اسمبلی حلقوں میں سے صرف 57 حلقوں میں مقامی باشندے فتح یاب ہوسکتے ہیں۔ صوبہ کی یہ حالت ہوچکی ہے۔

قانون میں ترمیم کی گئی

ایڈوکیٹ چودھری نے مزید کہا کہ جس وقت پارلیمنٹ نے دفعہ6 اے کی ترمیم کی تھی اس وقت کی حکومت کے پاس بہت زیادہ طاقت کی تھی، چار سو سے زائد ممبران آف پارلیمنٹ تھے، سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیئے قانون میں ترمیم کی گئی تاکہ تارکین وطن کو شہریت دی جاسکے۔ یہ ایک ووٹ بینک کی سیاست تھی، ہمارے اپنے لوگ اقلیت میں آگئے جس کی وجہ سے وہ اپنے مذہبی حقوق کی ادائیگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایسے معاملات میں دہری شہریت نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ ان لوگوں نے اپنی شہریت ترک نہیں کی ہے۔ایڈوکیٹ چودھری کی بحث مکمل ہونے کے بعد ایڈوکیٹ وجئے ہنساریہ نے بحث شروع اور عدالت کو بتایا کہ بنگلہ دیش 26 مارچ 1971 کو بنا تھا اس سے قبل تارکین وطن پاکستانی تھے جو یہ کہتے ہیں اللہ صرف ایک ہے لہذا یہ لوگ ایک سیکولر ملک کے شہری اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک وہ پہلے اپنی پہلی شہریت ترک نا کردیں۔

سالسٹر جنرل تشار مہتا کے بعد کپل سبل کریں گے بحث

دوان سماعت چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون بناتے وقت انسانی تکالیف کو سامنے رکھا تھا، کون کہا ں سے آرہا ہے اس کو بنیاد نہیں بنایا گیا تھا۔آج سماعت نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے بقیہ سماعت کل کئے جانے کا حکم جاری کیا۔ کل سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا بحث کا آغاز کریں گے، تشار مہتا گکی بحث کے اختتام کے بعد سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل بحث کریں گے۔ واضح ر ہے کہ آسام میں شہریت کے تعین کے لئے 1951 کے شہریت ایکٹ میں سیکشن 6 اے شامل کرکے شہریت کی بنیاد25?مارچ 1971کو حتمی تاریخ تسلیم کئے جانے کو باقاعدہ پارلیمنٹ میں منظوری دی گئی تھی، یہ ترمیم 15اگست 1985کو آسام کی ریاستی سرکار اورمرکز کے درمیان ہوئے ایک اہم معاہدہ کی تکمیل میں کی گئی تھی، اس کے بعد آسام میں شہریت کا معاملہ تقریبا ختم ہوگیا تھا لیکن 2012میں بعض فرقہ پرست تنظیموں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے مطالبہ کیا کہ شہریت کی بنیاد25مارچ 1971کے بجائے 1951کی ووٹرلسٹ کو بنایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ اسی عرضی میں آسام معاہدہ کی قانونی حیثیت اورشہریت ایکٹ میں 6Aکی دفعہ کے اندراج کو بھی چیلنچ کیاگیا، اس معاملہ کو سپریم کورٹ نے جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس نریمن پر مشتمل ایک دورکنی بینچ کے سپردکردیاتھا جس نے 13سوالات قائم کرکے مقدمہ کو ایک پانچ رکنی آئینی بینچ کے حوالہ کردیاتھاجو اس مقدمہ کی سماعت کررہی ہے، اس اہم مقدمہ میں جمعیۃعلماء ہند روز اول سے ہی ایک اہم فریق ہے، آج جمعیۃعلماء ہند اورآمسو کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ وکیل مسٹرکپل سبل،سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید، سینئرایڈوکیٹ اندراجے سنگھ، ایڈوکیٹ مصطفی خدام حسین اورایڈوکیٹ آن ریکارڈفضیل ایوبی بحث کریں گے۔ واضح ہوکہ راجیوگاندھی کے دورحکومت میں جب شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے شہریت کے لئے 25مارچ 1971کو کٹ آف تاریخ رکھا گیا تھا تو اس ترمیم کو تمام اپوزیشن پارٹیوں نے تسلیم کیا تھا ان میں بی جے پی بھی شامل تھی۔

   -بھارت ایکسپریس