Bharat Express

Supreme Court

چیف جسٹس نے کہا کہ جب راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ انضمام کا معاہدہ کیا تو جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم ہوگئی۔ اور وہ ہندوستان کے ماتحت ہو گیا۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے کپل سبل، گوپال سبرامنیم، دشینت دوے، راجیو دھون، دنیش دویدی، گوپال شنکر نارائن سمیت 18 وکلاء نے اپنے دلائل پیش کئے۔

جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا پر مشتمل سی جے آئی کی سربراہی والی بنچ نے کہا، "یہ تمام قانون سازی کی پالیسی کے معاملات ہیں۔" درخواست میں تمام ہائی کورٹس کو انتخابی درخواستوں پر چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی ہدایت بھی مانگی گئی ہے۔

خبر آئی ہے کہ سپریم کورٹ نے 11 دسمبر بروز سوموار کو اس پر فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں فیصلے کی تاریخ 11 دسمبر رکھی گئی ہے جس پر اب مرکزی سرکار سے لیکر جموں کشمیر کی سیاسی وسماجی شخصیات کے ساتھ ہی عام عوام کی بھی نظریں ہیں اور خاص طور پر پڑوسی ملک پاکستان بھی اس کی طرف گہر نظر رکھے ہوا ہے۔

ایڈوکیٹ شیام دیوان نے عدالت کو بتایا کہ اگر غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی گئی تو آنے والی نسلیں بھی اپنا قانونی حق طلب کریں گی جس کی وجہ سے ہندوستان کی سماجی، سیاسی، معاشی حالت پر اثر پڑے گا۔

دگ وجے سنگھ نے اس سوال کو ایک بنیادی سوال قرار دیا ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو غور کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی سابق وزیر اعلیٰ دگ وجے سنگھ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا اور سپریم کورٹ سے بھی پوچھا کہ کیا وہ ہندوستان کی جمہوریت کو بچا سکتے ہیں؟

18 نومبر کو، تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایم کے اسٹالن نے ریاستی اسمبلی میں ایک خصوصی قرارداد پیش کی تاکہ ایوان سے منظور شدہ 10 بلوں پر غور کیا جا سکے اور گورنر آر این روی نے اسے واپس کر دیا۔

راگھو چڈھا نے راجیہ سبھا سے اپنی معطلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ انہیں اگست میں معطل کر دیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے پانچ ساتھی اراکین اسمبلی کے ناموں پر ان کی رضامندی کے بغیر دستخط کیے تھے۔

ساتھ ہی مرکز نے اس عرضی کی مخالفت کی ہے۔ ایس جی تشار مہتا نے کہاکہ  تمام سرحدی ریاستوں میں بی ایس ایف کا دائرہ اختیار ہے۔ 1969 سے گجرات کے پاس 80 کلومیٹر تھا، اب وہی 50 کلومیٹرہے۔ کچھ جرائم، پاسپورٹ وغیرہ پر بی ایس ایف کا دائرہ اختیار ہو گا۔

دراصل مولانا محمد علی جوہر ٹرسٹ نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ میں مولانا محمد علی جوہر ٹرسٹ نے یونیورسٹی کو دی گئی زمین کی لیز کو منسوخ کرنے کے یوپی حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔