بلقیس بانو کے لئے مشہور وکیل ورندا گروور نے سپریم کورٹ میں پیروی کی۔ پروفیسر روپ ریکھا ورما نے بھی ہراسٹیج پران کی آواز اٹھائی۔ سی پی آئی لیڈر سبھاشنی علی اور صحافی ریوتی لال نے بھی بلقیس بانو کو انصاف دلانے کے لئے ان کے ساتھ رہیں۔ سپریم کورٹ نے کل اپنا فیصلہ سناتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اس معاملے کے 11 قصورواروں کو دو ہفتے کے اندرسرینڈرکرنا ہوگا اورجیل جانا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اجتماعی آبروریزی متاثرہ بلقیس بانو جذباتی ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ میں خوشی کے آنسوروئی ہوں۔ انہوں نے اپنے وکیل شوبھا گپتا کے حوالے سے کہا کہ وہ ڈیڑھ سال میں پہلی بارمسکرائی ہوں۔ بلقیس بانو کو انصاف دلانے کے لئے کئی خواتین نے مدد کی۔ اس میں چار بے حد اہم رہیں۔ آئیے ان کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی وکیل ورندا گروور
سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ورندا گروور نے بلقیس بانو کی قانونی جنگ لڑی۔ انہوں نے ورندا گروور کو انصاف دلانے کے لئے پوری طاقت جھونک دی تھی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے اس استقبال بھی کیا تھا۔ حقوق انسانی سے متعلق تحریک میں سرگرم رہنے والی ورندا گروور فرقہ وارانہ تشدد اورٹارگیٹ کلنگ کے خلاف قانون بنانے کامطالبہ کرتی رہی ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی کی لیڈرسبھاشنی علی
بلقیس بانو کی اجتماعی آبروریزی کو ٹھیک دو دن بعد 2002 میں گجرات کے راحتی کیمپ میں ان سے ملنے والی کمیونسٹ پارٹی کی لیڈراورسابق رکن پارلیمنٹ سبھاشنی علی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنے والے لوگوں میں شامل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے گجرات حکومت کے قصورواروں کی رہائی کے فیصلے کے بارے میں جانا تو مجھے لگا کہ یہ انصاف کے خاتمے جیسا ہے۔ یہ بجلی کے جھٹکے کے جیسا تھا۔ تاہم ہم نے عرضی داخل کی اورکپل سبل، اپرنا بھٹ اوردیگرمشہوروکیلوں نے اس میں ہماری مدد بھی کی۔
صحافی اور رائٹر ریوتی لال
جب اس بارے میں عرضی تیار ہوگئی اور دوعرضی گزارتیارہوگئے تو ایک تیسرے عرضی گزارکی ضرورت پڑی۔ اس کے لئے سینئرصحافی ریوتی لال تیارہوگئیں۔ ریوتی لال نے کہا کہ عرضی پوری طرح تیارہوگئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے رابطہ کیا گیا۔ بلقیس بانو کے ساتھ ہوئی اجتماعی آبروریزی کے بعد میں اس سے ملی بھی تھی۔ میں فوراً تیسری عرضی گزاربننے کو تیارہوگئی۔
لکھنؤ یونیورسٹی کی پروفیسر ریکھا ورما
لکھنؤیونیورسٹی سے 40 سال تک ٹیچنگ سے وابستہ پروفیسرریکھا ورما نے کہا کہ گجرات حکومت کے فیصلے سے حقوق انسانی کے کارکنان کافی مایوس تھے۔ لکھنؤ یونیورسٹی میں فلاسفی کی پروفیسررہیں ریکھا ورما نے کہا کہ اس بارے میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرنے کا منصوبہ بن رہا تھا۔ مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا تومیں اس کے لئے تیارہوگئی۔ ‘سانجھی دنیا’ نامی تنظیم یعنی سنگٹھن چلانے والی 80 سالہ پروفیسرریکھا ورما نے کہا کہ وہ گجرات حکومت کے فیصلے سے کافی ڈسٹرب تھیں۔ اس لئے وہ فوراً تیارہوگئیں۔
-بھارت ایکسپریس