ممبئی فلم فیسٹیول مامی میں جن فلموں کی سب سے زیادہ چرچہ رہی ان بلغاریہ کے ڈائریکٹر Konstantin Bojanov کی ہندی فلم ‘دی شیملیس’بھی تھی، اسے خود کونسٹنٹین بوزانوف نے خود لکھا ہے۔ یہ فلم MAMI فلم فیسٹیول کے فوکس ساؤتھ ایشیا سیکشن میں دکھائی گئی اور ناظرین حیرت زدہ ہو گئے تھے۔ اس فلم کی بھارتی پروڈیوسر موہن نادر کی کمپنی TPHQ ہے۔ بالغ اور حساس مواد کی وجہ سے اس فلم کے کچھ مناظر نیپال میں شوٹ کئے گئے۔ ‘دی شیملیس’ کو 17 مئی 2024 کو 77ویں کانز فلم فیسٹیول کے دوسرے سب سے اہم سیکشن Un Certain میں دکھایا گیا اور مرکزی کردار ادا کرنے والی انسویا سینگپتا کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا۔
بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا
اس طرح انسویا سینگپتا کانز فلم فیسٹیول میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی بھارتی اداکارہ بن گئی ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ پندرہ سال قبل انسویا سینگپتا اداکارہ بننے ممبئی آئیں اور جب انہیں موقع نہیں ملا تو وہ بطور پروڈکشن اسسٹنٹ کام کر رہی تھیں۔ اچانک انہیں یہ فلم ملی اور کانز فلم فیسٹیول میں یہ شاندار ایوارڈ جیت کر تاریخ رقم کردی۔ کانز فلم فیسٹیول میں ایوارڈ ملنے کے بعد یہ فلم دنیا بھر کے فلمی میلوں میں سرخیوں میں بنی رہی۔ فلم میں دیگر کردار میتا وشیشٹھ، اومرا شیٹھی، روہت کوکاٹے، اوروشیکھا ڈے وغیرہ نے اداکاری کی ہے ۔ میتا وشیشٹھ نے بھی کمال کی اداکاری کی ہے اور اومرا شیٹھی تولاجواب ہیں۔ یہ بھی ایک خوشگوار حیرت کی بات ہے کہ ایک بار پھر غیر ملکی ہدایت کار بھارت اور خاص طور پر ہندی میں فلمیں بنانے میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔
بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا
‘دی شیملیس’ نہ صرف انسویا سینگپتا کی شاندار کارکردگی کے لیے جانی جاتی ہیں ، بلکہ یہ گیبریل لوبوس کی غیر معمولی سنیماٹوگرافی کے لیے بھی متاثر کن ہے ،جس میں سین اور مکالمے ایک گہرا ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ دہلی کے جی بی روڈ پر ایک کوٹھے میں آدھی رات کو ایک پولیس افسر کو قتل کرنے کے بعد بھاگتے ہوئے اس کا فلم کا پہلا سین ہو یا میں ٹرین کی پٹریوں سے ساتھ ساتھ پر چلتے ہوئے مکتی کی تلاش چلے جانے کا آخری منظر۔ فلم ہندوستان میں مسلم سماج کی ٹوٹی ہوئی شناخت اور بڑھتا ہوا دائیں بازو کا سیاسی غلبہ اور مذہبی عدم مساوات کے بیچ مجبوری میں سیکس ورکر کا کام کرنے والی دو لڑکیوں درمیان نرم اوغیر معمولی دوستی سے بنے ہندوستان خواتین کی زندگی کو فوکس کیا گیا ہے۔
فلم کی کہانی کیا ہے؟
ایک مسلم لڑکی اپنا نام بدل کر ہندو لڑکی رینوکا (انسویا سینگپتا) رکھ لیتی ہے اور دہلی کے جی بی روڈ پر ایک کوٹھے میں سیکس ورکر کے طور پر کام کرتی ہے۔ آدھی رات کو وہ اپنے ایک کلائینٹ کو قتل کر دیتی ہے ،جو ایک پولیس افسر ہے۔ وہاں سے بھاگ کر وہ مدھیہ پردیش کے چھتر پور جیسے چھوٹے شہر کے ریڈ لائٹ ایریا میں پناہ لیتی ہے۔ رینوکا ایک منشیات کی عادی اور ہم جنس پرست بھی ہے، لیکن پیسہ کمانے کے لیے جنسی ورکر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اگر اسے زیادہ پیسے ملتے ہیں تو وہ غیر فطری جنسی تعلقات پر بھی راضی ہو جاتی ہے۔ وہ ایک چین سموکر بھی ہے اور بندداس زندگی گزارتی ہے۔ وہ نڈر اور آزاد سوچ رکھنے والی ہے۔ دہلی میں اپنے ایک بروکر کے ذریعے، وہ بہتر زندگی کی تلاش میں فلپائن فرار ہونے کے لیے دن رات پیسے بچا رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر وہ پکڑی گئی تو اسے یا تو پھانسی دی جائے گی یا کسی پولیس افسر کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا دی جائے گی یا پھر پولیس اسے مقابلے میں مار ڈالے گی۔ یہاں ان کا سب سے بڑاکلائینٹ ایک سیاسی پارٹی کا مقامی طاقتور لیڈر ہے، جو ایم ایل اے الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔
یہاں اس کی ملاقات سترہ سالہ دیویکا (اومرا شیٹھی) سے ہوتی ہے، جو پڑوس میں رہتی ہے۔ دیویکا کا پریوار جسم فروشی کے کاروبار کرتا ہے۔ اس کے گھر میں تین نسلیں ہیں۔ اس کی والدہ جو کوٹھے کی مالک ہیں، اس کی دادی جو کبھی دیوداسی تھیں اور اب ایک روحانی عورت بن چکی ہیں اور وہ اور اس کے بہن بھائی۔ دیویکا اس جہنم سے آزادی چاہتی ہے۔ اس کی ماں نے دھوکہ دہی سے اپنی بڑی بہن کو دہلی کے ریڈ لائٹ ایریا کے دلالوں کو بیچ دیا تھا۔ اب وہ دیویکا کے کنوار پن کا سودا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گھر میں تینوں نسلوں کی خواتین میں مسلسل جھگڑا رہتا ہے۔ مختصراً، دیویکا کی والدہ آخرکار اس کے کنوار پن کا سودا علاقے کے ایک طاقتور سیاستدان سے بھاری قیمت پر کرتی ہے۔ وہ ایک طرح سے دیویکا کی عصمت دری کرتا ہے۔ دوسری طرف رینوکا کے جسم فروشی کرکر کمائے گئے لاکھوں روپے چوری ہو گئے۔ طاقتور لیڈر نے ایم ایل اے الیکشن جیت چکا ہے۔ اس کی جیت کا جشن جاری ہے۔ اسی رات رینوکا اور دیویکا اس آدھی تعمیر شدہ عمارت کے کھنڈرات میں ملتے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے بھاگ جائیں۔ وہ اسے کہتی ہے کہ وہ اس کا انتظار کرے۔ رینوکا میں جاکر وجے جلوس کے دبنگ لیڈر کو مار دیتی ہے اور پکڑی جاتی ہے۔ رہنما کے حامیوں نے اسے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ یہاں دیویکا پوری رات رینوکا کا انتظار کرتی ہے۔ جب وہ واپس نہیں آتی، تو آخری سین میں ہم دیویکا کو اپنے سامان کے بنڈل کے ساتھ ریلوے لائن پر چلتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ سورج مشرق میں طلوع ہوتا ہے۔
رینوکا (انسویا سینگپتا) اور دیویکا (اومرا شیٹھی) ایسے جہنم زدہ ماحول میں ایک آدھی تعمیر شدہ عمارت کی تنہائی میں محبت، بہن بھائی اور دوستی کے کچھ لمحات اپنے لئے نکال لیتے ہیں اور کہیں بھاگ کر نئی زندگی شروع کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک ہم جنس پرست رشتہ بھی پروان چڑھتا ہے، لیکن فلم کا کیمرہ ان کی اشتعال انگیز جسمانی تفصیلات میں جانے کے بجائے ان کے دکھ درد کو پیش کرتا ہے۔ دو لڑکیوں کے درمیان غم اور اذیت کے تجربات کے اشتراک پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ کیمرہ بیک وقت رینوکا کے چہرے پر خوشی اور اذیت کے تاثرات کو کیسے فوکس کرتا ہے۔ ان کا ہر عمل، حرکت اور مکالمہ ان کی اداکاری کے انداز کو ظاہر کرتا ہے۔ ہر منظر کا ایک پس منظر ہوتا ہے جو سماجی اور سیاسی معنی رکھتا ہے۔ فلم میں کوئی علیحدہ اخلاقی صلاح دینے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی پر کوئی الزام لگایا گیا ہے۔ اسکرین پلے کے تانے بانے کو حالات اور انسانی احساس کے ذریعے بُنا گیا ہے۔ ایک طرف دادی (میتا وششٹھ) کی غیر فعال روحانیت ہے، دوسری طرف اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ماں کا ظلم ہے اور سب سے بڑھ کر بیٹی کی آزادی کی آرزو ہے۔ ان تین نسلوں کی عورتوں کو کنٹرول کرنے اور انہیں اپنا غلام بنانے کی مردانہ کوششیں بھی کم نہیں۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ فلم کے آخری مناظر میں کسی خاص سیاسی جماعت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے فلم کمزور ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے اس فلم کا بھارت میں ریلیز ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ حالانکہ یہ ہدایت کار کی اپنی پسند ہے۔
بھارت ایکسپریس