Bharat Express

Omar Abdullah

ہما قریشی کی سیریز ’مہارانی‘ اب تنازعہ میں آگئی ہیں۔ عمرعبداللہ کے وائرل ٹوئٹ کے بعد کافی ہنگامہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے اسے جمہوریت کے لئے شرمناک قرار دیا ہے۔

عبداللہ نے کہا کہ اگر بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تو پھر ہم ہندوستان میں کیسے رہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''کیا یہ مہاتما گاندھی کا ہندوستان ہے جہاں ہم امن سے رہ سکتے ہیں؟ نفرت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہندو اور مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔''

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے جسٹس بی آر گوائی اور سوریہ کانت کے ساتھ اپنی طرف سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آئین کی دفعہ 370 ایک عارضی شق ہے اور صدر کے پاس اسے منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔

جموں وکشمیر حد بندی اورریزرویشن بل سے متعلق پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے مرکزی حکومت پر تنقید کی ہے۔ محبوبہ مفتی نے اس عمل کو غیر قانونی بتایا۔

نیشنل کانفرنس لیڈر نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے 31 اکتوبر کو یونین ٹیریٹری ڈے کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ ہم سے مشاورت کے بعد نہیں کیا گیا اور اس کے برعکس کشمیر کے نوجوانوں سے نوکریوں کے جھوٹے وعدے بھی خواب بن کر رہ گئے ہیں۔

نیشنل کانفرنس لیڈر نے کہا، "جس طرح سے سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان لڑائی ہوئی اور دونوں نے کہا کہ وہ یوپی میں تمام سیٹوں پر الیکشن لڑیں گے، یہ انڈیا اتحاد کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان اسمبلیوں میں انتخابات کے بعد ہم دوبارہ ملیں گے اور ساتھ بیٹھ کر اچھا کام کرنے کی کوشش کریں گے۔

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے یہاں ایک پارٹی پروگرام کے موقع پر نامہ نگاروں سے کہا، ''کیا مجھے اپنے خیالات پیش نہیں کرنے چاہئیں؟ میں نے اپنی پارٹی کا موقف بیان کیا تھا اور یہ میرا حق ہے۔

عمر عبداللہ نے کہا، 'اگر 80 فیصد لوگ الیکشن نہیں چاہتے تو وہ پولنگ میں جاکر  نوٹا کا بٹن دبائیں۔ اگر جموں و کشمیر کے 50 فیصد لوگ بٹن دبائیں تو میں سیاست چھوڑ کر گورنر کوتاج پہناؤں گا۔

انڈیا اتحا د کی  ریلی میں مہنگائی، بے روزگاری اور بی جے پی کی بدعنوانی کے مسائل کو زوروں سے اٹھایا جائے گا۔ ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ انڈیا اتحاد کا کوئی لیڈر چند میڈیا گروپس کے اینکرز کے شوز میں شرکت نہیں کرے گا۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدرعمر عبداللہ نے ہفتہ کے روز کہا کہ مقامی رہنما اگست 2019 سے پارٹی کی نقل و حرکت پر انتظامیہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے عادی ہو چکے ہیں، لیکن یہ اقدامات عوام کے ساتھ ان کے تعلقات کو کمزور نہیں کر سکتے۔