Bharat Express

Jamiat Ulema-E-Hind

اترپردیش، مدھیہ پردیش اورراجستھان میں ملزمین پرحال ہی میں بلڈوزر کارروائی کی گئی، جس کے خلاف اب جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند نے الزام لگایا ہے کہ اقلیتی طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اورجسٹس منوج کمار تیواری نے یہ فیصلہ صادرکیا۔ مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہندنے ملزمین کو قانونی امداد فراہم کی۔

کیرلا کے وائناڈ ضلع میں جو بھیانک تباہی ہوئی ہے، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ 600 سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں اورہزاروں لوگوں کوبے گھرہونا پڑا ہے، راحت رسانی کا کام مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند نے بھی بڑا قدم اٹھایا ہے۔

جمعیةعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں، جنہیں مذہبی اورمسلم خیرات کے کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے، حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے۔

ممتاز مسلم تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے ہفتہ (20 جولائی) کو اتر پردیش میں کانوڑ یاترا کے راستے پر دکانداروں کے نام ظاہر کرنے کے حکم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک 'امتیازی اور فرقہ وارانہ' فیصلہ ہے اور اس سے آئین میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند نے کل اپنی لیگل ٹیم کی ایک میٹنگ طلب کی ہے، جس میں اس غیرآئینی، غیر قانونی اعلان کے قانونی پہلوؤں پرغوروخوض کیا جائے گا۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء ہند اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن داخل کرسکتی ہے۔

مولانا ارشد مدنی نے ایک بیان میں کہا کہ جمعیۃ علماء ہند ایک صدی سے ملک میں محبت پھیلانے کا کام کر رہی ہے۔ وہ مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی بنیاد پر ریلیف اور فلاحی کام کرتی ہیں۔ کیونکہ کوئی مصیبت یا سانحہ یہ پوچھنے سے نہیں آتا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔

وارانسی کے گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں ویاس جی کو پوجا کی اجازت دیئے جانے مسلم فریق نے سخت ناراضگی ظاہر کی ہے اورعدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے وزیراعظم موی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھ کر اپیل کی ہے وہ خود اس معاملے کا نوٹس لیں۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے گیان واپی مسجد اور متھرا شاہی عید گاہ سے متعلق کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ہمیں مکمل یقین ہے کہ اگر ایمانداری سے سروے ہوا تو وہاں سے کچھ بھی نہیں نکلے گا، لیکن اب جس طرح یہ نیا تنازعہ کھڑا کیا گیا، وہ 1991میں عبادت گاہوں کے تحفظ پر پارلیمنٹ کے ذریعہ لائے گئے قانون کے منافی ہے۔