Bharat Express

Jamiat Ulema-E-Hind

مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے لوک سبھا میں وقف بل 2024 پیش کیا تھا جس کی کانگریس اور سماج وادی پارٹی سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے مخالفت کی تھی۔ انڈیا اتحاد نے اسے مسلم دشمن قرار دیا۔ یہ بل لوک سبھا میں بحث کے بغیر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔

جمعیۃ علماء ہند کے ایک وفد نے آج جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں غازی آباد کے پولیس کمشنراجے کمارمشرا سے ملاقات کی اور انہیں ایک تحریری یادداشت پیش کی، جس میں مہنت یتی نرسنگھانند کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نےکہا کہ بلڈوزراس ملک میں ناانصافی کی علامت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عام تاثرہے کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی مساجد ومعابد کی نشاندہی کرتی ہیں اورمقامی حکام فوراً منہدم کردیتے ہیں، اس سلسلے میں چند ایسے واقعات ہوئے ہیں، جوانتہائی افسوسناک ہیں۔

جسٹس بی آرگوئی اورجسٹس وشوناتھن کی دورکنی بینچ نے کہا کہ وہ بلڈوزرکارروائی کے خلاف پورے ملک کے لئے ہدایت جاری کرے گی، جوتمام شہریوں کے لئے ہوگی۔ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے لہٰذا ہمارا فیصلہ تمام لوگوں پرلاگوہوگا اورہم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں جو معلومات پہنچائی گئی ہیں، اس کے مطابق 12 لوگوں کویک فریقی حکم کے ذریعہ غیرملکی قرار دیا گیا ہے یعنی انہیں ٹربیونل کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

 سیلاب سے متعددگاؤں پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں،ہزاروں کی تعدادمیں لوگ اب بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، ان میں سے بعض متاثرین ایسے بھی ہیں جواب وہاں سے دورکسی دوسری جگہ کرایہ پر رہ رہے ہیں، جمعیۃعلماء کے ذریعہ انہیں بھی کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جارہی ہیں۔

اترپردیش، مدھیہ پردیش اورراجستھان میں ملزمین پرحال ہی میں بلڈوزر کارروائی کی گئی، جس کے خلاف اب جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند نے الزام لگایا ہے کہ اقلیتی طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اورجسٹس منوج کمار تیواری نے یہ فیصلہ صادرکیا۔ مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہندنے ملزمین کو قانونی امداد فراہم کی۔

کیرلا کے وائناڈ ضلع میں جو بھیانک تباہی ہوئی ہے، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ 600 سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں اورہزاروں لوگوں کوبے گھرہونا پڑا ہے، راحت رسانی کا کام مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند نے بھی بڑا قدم اٹھایا ہے۔

جمعیةعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں، جنہیں مذہبی اورمسلم خیرات کے کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے، حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے۔