Bharat Express

Jamiat Ulema-E-Hind

جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نےکہا کہ بلڈوزراس ملک میں ناانصافی کی علامت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عام تاثرہے کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی مساجد ومعابد کی نشاندہی کرتی ہیں اورمقامی حکام فوراً منہدم کردیتے ہیں، اس سلسلے میں چند ایسے واقعات ہوئے ہیں، جوانتہائی افسوسناک ہیں۔

جسٹس بی آرگوئی اورجسٹس وشوناتھن کی دورکنی بینچ نے کہا کہ وہ بلڈوزرکارروائی کے خلاف پورے ملک کے لئے ہدایت جاری کرے گی، جوتمام شہریوں کے لئے ہوگی۔ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے لہٰذا ہمارا فیصلہ تمام لوگوں پرلاگوہوگا اورہم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں جو معلومات پہنچائی گئی ہیں، اس کے مطابق 12 لوگوں کویک فریقی حکم کے ذریعہ غیرملکی قرار دیا گیا ہے یعنی انہیں ٹربیونل کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

 سیلاب سے متعددگاؤں پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں،ہزاروں کی تعدادمیں لوگ اب بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، ان میں سے بعض متاثرین ایسے بھی ہیں جواب وہاں سے دورکسی دوسری جگہ کرایہ پر رہ رہے ہیں، جمعیۃعلماء کے ذریعہ انہیں بھی کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جارہی ہیں۔

اترپردیش، مدھیہ پردیش اورراجستھان میں ملزمین پرحال ہی میں بلڈوزر کارروائی کی گئی، جس کے خلاف اب جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند نے الزام لگایا ہے کہ اقلیتی طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اورجسٹس منوج کمار تیواری نے یہ فیصلہ صادرکیا۔ مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہندنے ملزمین کو قانونی امداد فراہم کی۔

کیرلا کے وائناڈ ضلع میں جو بھیانک تباہی ہوئی ہے، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ 600 سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں اورہزاروں لوگوں کوبے گھرہونا پڑا ہے، راحت رسانی کا کام مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند نے بھی بڑا قدم اٹھایا ہے۔

جمعیةعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں، جنہیں مذہبی اورمسلم خیرات کے کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے، حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے۔

ممتاز مسلم تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے ہفتہ (20 جولائی) کو اتر پردیش میں کانوڑ یاترا کے راستے پر دکانداروں کے نام ظاہر کرنے کے حکم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک 'امتیازی اور فرقہ وارانہ' فیصلہ ہے اور اس سے آئین میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند نے کل اپنی لیگل ٹیم کی ایک میٹنگ طلب کی ہے، جس میں اس غیرآئینی، غیر قانونی اعلان کے قانونی پہلوؤں پرغوروخوض کیا جائے گا۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء ہند اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن داخل کرسکتی ہے۔