جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی۔ (فائل فوٹو)
نئی دہلی/گوہاٹی: آسام کی ہمنتا بسوا سرما حکومت آئے دن نئے نئے فیصلے کررہی ہے، اس میں کئی ایسے فیصلے ہیں، جسے مسلمانوں کے خلاف سرکاری ظلم وستم تسلیم کیا جا ر ہا ہے۔ مسلم تنظیمیں اس پرمسلسل سوال اٹھا رہی ہیں۔ اسی سلسلہ کے تحت کل 28 مجبورمسلمانوں کو جن میں خواتین بھی شامل ہیں، غیرملکی قراردے کر جبراً حراستی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، انہیں فارن ٹربیونل نےغیرملکی قراردیا تھا ان کا تعلق آسام کے بارپیٹا ضلع سے ہے۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ 28 میں سے 12 توایسے ہیں، جن کے تعلق سے ٹربیونل کا فیصلہ یک فریقی حکم (ایکس پارٹی آرڈرایک ایسا قانونی فیصلہ ہے، جودوسرے فریق کی غیرموجودگی میں ایک فریق کے حق میں دے دیا جاتا ہے یا دوسرے فریق کوقانونی کارروائی میں حصہ لینے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا) انصاف پرمبنی نہیں ہے جبکہ 16 معاملہ میں قانونی کارروائی ہوئی ہے، ان میں سے اکثران پڑھ اورغریب ہیں اور عدالت کے قانونی معاملہ سے آگاہ نہیں ہیں، یہاں تک کہ 12 معاملہ میں فارن ٹربیونل کی طرف سے اس وقت تک کوئی نوٹس بھی نہیں پہنچا تھا۔ دوسرے معاملہ کی پیروی کرنے والے وکلاء نے بھی اپنے مؤکلوں کو معاملہ کا صحیح طریقہ سے دفاع کرنے کے بارے میں درست مشورہ نہیں دیاتھا۔
قابل ذکرہے کہ ان لوگوں کو1998 میں غیرملکی قراردیا گیا تھا، اس کا تاریک پہلویہ ہے کہ اس معاملہ میں جو غیرمسلم تھے، ان کے تعلق سے باقاعدہ ایک نوٹیفکشن 5جولائی 2024جاری کرکے کہا گیا کہ ا ن لوگوں کوسی اے اے کے تحت شہریت دی جاسکتی اورحکم نامہ کے مطابق بارڈپولس کویہ آرڈرکیا گیا ہے کہ جوہندو، کرسچن، سکھ، بدھ، جین، پارسی۔ 31 دسمبر2014 سے قبل ہندستان میں داخل ہوچکے ہیں، ایسے لوگ سٹیزن شپ کے لئے اپلائی کرسکتے ہیں اوران درخواستوں پرمرکزی حکومت غورکرسکتی ہے، لہذا ایسے کیسزکو فارن ٹربیونل نہ بھیجا جائے۔
28 مسلمانوں کو قراردیا گیا غیرملکی
اطلاعات کے مطابق پہلے ضلع کے مختلف علاقوں سے ان 28خاندانوں میں سے ایک ایک فرد کوتھانوں میں طلب کیا گیا، اس کے بعد انہیں ایس پی آفس لے جایا گیا، جہاں سے جبراً بس میں سوارکرکے حراستی کیمپ بھیج دیا گیا۔ دلیل دی جارہی ہے کہ انہیں آسام پولس کی سرحدی شاخ کی طرف سے غیرملکی ہونے کے نوٹس بھیجے گئے پھران کے مقدمات کوفارن ٹربیونل بھیج دیا گیا، جہاں کئی سماعتوں کے بعد ان سب کو غیرملکی قراردے دیا گیا۔ جبکہ آمسواوردوسری کئی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کوغیرملکی کیسے قراردیا جا سکتا ہے جبکہ ان کے خاندان کے دوسرے لوگ ہندوستانی ہیں۔ اس معاملہ پراپنے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ آسام میں قانون کا دوہرا پیمانہ استعمال ہورہا ہے، جس کے تحت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانونی عمل کوایمانداری سے پوراکئے بغیر یکطرفہ فیصلہ سناکرکسی شہری کی شہریت چھین لینا اورپھراسے جبراًحراستی کیمپ بھیج دینا ایک غیرانسانی فعل ہے، مگرآسام میں بی جے پی کے اقتدارمیں آنے کے بعد سے یہی سب کچھ ہورہا ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے اٹھائے سوال
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں جو معلومات پہنچائی گئی ہیں، اس کے مطابق 12 لوگوں کویک فریقی حکم کے ذریعہ غیرملکی قراردیا گیا ہے یعنی انہیں ٹربیونل کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف اس طرح کے معاملوں میں جوغیرمسلم ہیں ان کے لئے باقاعدہ نوٹیفکشن جاری کرکے سی اے اے کے تحت شہریت دینے کی بات کہی گئی۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخریہ کس طرح کا فیصلہ ہے کہ ایک ہی خاندان کے دوسرے لوگ توہندوستانی شہری ہوں، مگراسی خاندان کے بعض لوگوں کوغیرملکی قراردے دیا جائے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ قانون میں کہیں نہ کہیں کوئی خامی ضرورموجود ہے اوراگرایسا نہیں ہے تو پھریہ سمجھا جانا چاہئے کہ غیرملکی قانون کا ایک مخصوص فرقہ کے خلاف غلط استعمال ہو رہا ہے۔
مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پرجمعیۃ علماء کا بڑا فیصلہ
جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ ہم نے جمعیۃعلماء آسام سے تفصیلات طلب کیں، ہمارے وکلاء کی ٹیم نے اس کاجائزہ لیا اوراب ان کے قانونی مشورہ کی روشنی میں جلدہی جمعیۃعلماء آسام اس فیصلہ کوگواہائی ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے جارہی ہے، کیونکہ یہ ایک انسانی معاملہ ہے اس لئے جمعیۃعلماء ہند انصاف کے لئے آخری حد تک قانونی جدوجہد کرے گی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب گوہاٹی ہائی کورٹ نے این آرسی کے دوران پنچائیت سرٹیفکیٹ کوثبوت کے طورپرمسترد کردیا تھا تویہ جمعیۃعلماء ہند ہی تھی جس نے سپریم کورٹ میں اس معاملہ کو پوری طاقت سے لڑا اورکامیابی حاصل کی جس کے نتیجہ میں 48لاکھ خواتین میں سے 25 لاکھ مسلم اور23 لاکھ ہندوخواتین کی شہریت بچ گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگرجمعیۃعلماء ہند ایسا نہ کرتی توگوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے آسام میں ایک بڑا انسانی بحران پید ا ہوسکتا تھا۔ جمعیۃعلماء ہند نے اس معاملہ کوانسانیت کی بنیادپرلڑا تھا اوراب تازہ معاملہ کوبھی وہ انسانیت کی بنیاد پرلڑے گی۔
بھارت ایکسپریس–