جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃعلماء کے ایک وفدنے آج چوتھی بار کیرالاکے قدرتی آفات سے متاثرہ وائناڈضلع کا دورہ کیا، وفدمیں جمعیۃعلماء کرناٹک کے صدرمولانا عبدالرحیم، جنرل سکریٹری محب اللہ خاں امین اوردیگر ارکان شامل تھے، قابل ذکر ہے کہ 26جولائی کو ہونے والی طوفانی بارش سے وہاں زبردست تباہی آئی اورجانی ومالی نقصان ہواجس کے نتیجہ میں چھ سوسے زیادہ لوگوں کی موتیں ہوئیں اورکئی ہزارلوگ پوری طرح سے بے گھر ہوگئے، جیسے ہی اس کی اطلاع مولانا مدنی کو ہوئی انہوں نے جمعیۃعلماء کرناٹک اورکیرالاکے ذمہ داروں کو ہدایت کی کہ وہ فوراوہاں پہنچ کر بچاؤاورراحت رسانی کے کام میں مصروف ہوجائیں، اس وقت سے جمعیۃکے رضاکارمستقل طورپر متاثرہ علاقوں میں موجودہیں اورمتاثرین کو ہر ممکن مددفراہم کررہے ہیں، درمیان میں بھی جمعیۃعلماء کے ارکان وفدکی صورت میں وہاں کا دورہ کرتے اورصورتحال کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔
سیلاب سے متعددگاؤں پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں،ہزاروں کی تعدادمیں لوگ اب بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، ان میں سے بعض متاثرین ایسے بھی ہیں جواب وہاں سے دورکسی دوسری جگہ کرایہ پر رہ رہے ہیں، جمعیۃعلماء کے ذریعہ انہیں بھی کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جارہی ہیں اورجن کے پاس ابھی رہنے کا کوئی انتظام نہیں ہے،آج وفدنے منڈاکٹی اورچورمالائی گاؤں کے متاثرین میں اشیاء ضروریہ کی تقسیم کی، گیارہ غیرمسلم خاندانوں سمیت کل 51خاندانوں کو فرنیچرجیسے صوفہ، الماری بسترکھانے کی میز(پلاسٹک)کرسی، اسٹول گھریلو سامان جیسے مکسر،گیس چولہا، ڈوساپین اورکچن میں کام آنے والے دوسرے سامان جن کی مجموعی قیمت فی خاندان تیس ہزارروپے ہے، تقسیم کی گئی، انفرادی طورپر حجامت کی دوکان چلانے والے ایک شخص کو سامان اوراوزارکے لئے 45ہزارروپے اوردیگر تین لوگوں کو جو کارپنٹری کا کام کرتے ہیں، دوبارہ اپنا کام شروع کرنے کے لئے 15ہزارروپے فی کس مالی اعانت کی گئیں۔
اس موقع پرمتاثرین نے کہا کہ لوگ آئے، دلاسہ دے کر چلے گئے مگر کام جمعیۃ علمائے ہند نے کیا۔یہ مجموعی تاثر کیرالا کے ان سیلاب متاثرین کا ہے جن 51 لوگوں کے مابین آج ریلیف تقسیم کی گئی، ان میں سے کچھ لوگ اس قدر جذباتی ہو گئے کہ جب ان سے ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی گئی تو زبان سے کچھ نہ کہہ سکے البتہ ان کی انکھیں مارے خوشی سے چھلک پڑیں۔ ایک غیر مسلم عورت نے مقامی زبان میں کہا کہ اوپر والا مدنی صاحب کو سلامت رکھے انہوں نے ہمارے درد کو محسوس کیا، ایک ایسی ہی فیملی کو ایک لاکھ بیس ہزارکی دوگائیں بھی خرید کر دیں جن کا دودھ کا کاروبارتھا، لیکن اس سیلاب میں ان کے بیس گائیوں کے طبیلہ بھی ختم ہوگئے۔
اس سانحہ میں چھ سوسے زیادہ لوگ اپنے قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں،وہیں سینکڑوں بچے اوربچیاں یتیم ہوچکی ہیں، اب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے،اس سلسلہ میں جمعیۃعلماء کے وفدنے مقامی ڈی ایم سے یہ درخواست کی کہ جن بچوں کے ماں باپ دونوں فوت ہوچکے ہیں اوران کی دیکھ بھال کرنے والا اب کوئی نہیں ہے جمعیۃعلماء ایسے بچوں کی پرورش وتعلیم کی مکمل ذمہ داری لینا چاہتی ہے، تاکہ ان کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے،جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے وائناڈمیں آئی تباہی کو انسانی سانحہ سے تعبیر کیا اورکہا کہ ہم مالک کائنات کے بندہ ہیں چنانچہ اس کے ہر فیصلہ پر سرتسلیم خم کرتے ہیں کہ ہماری بندگی کا تقاضایہی ہے، اور وہی ہے جو ہر پریشانی کا مدواکرسکتاہے۔ تاہم اسباب کے طورپر جمعیۃعلماء، اس کے خدام اوراس کی شاخیں اپنی بساط بھر متاثرین کی مددکررہی ہیں،انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مصیبت یہ پوچھ کر نہیں آتی کہ کون ہندوہے اورکون مسلمان، بلکہ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تووہ ایک ساتھ سب کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے، وائناڈکے متاثرین میں بھی ہر مذہب کے ماننے والے شامل ہیں اورجمعیۃعلماء بلاتفریق مذہب سب کی مددکررہی ہے، کیونکہ انسانیت کی خدمت ہی اس کا نصب العین ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ آج جن 51 خاندانوں میں ضروری اشیاء تقسیم کی گئی ان میں گیارہ غیر مسلم خاندان بھی شامل ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ ملک میں جو فرقہ پرست طاقتیں سرگرم ہیں ان لوگوں کو مذہب اورذات کی بنیادپر تقسیم کرکے ان کے اندرنفرت کازہر بھرنے کا کام کررہی ہے، لیکن جمعیۃعلماء کا پیغام محبت ہے ۔انسانیت کی سربلندی اورانسانوں کی خدمت ہے جو اسے اس کے بزرگوں کے ذریعہ ورثہ میں ملا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مذہب اورکپڑوں سے انسان کی شناخت کرتے ہیں، جمعیۃعلماء ہند ایسے لوگوں سے کہنا چاہتی ہے کہ وہ آئیں اورمذہب اورکپڑوں سے انسانوں کی شناخت کریں اوردیکھ لیں کہ ایسے لوگوں کا عمل وکردارکیا ہے، انہوں نے آخرمیں کہا کہ وائناڈمیں جو لوگ بے گھر ہوئے ہیں جمعیۃعلماء انہیں نیا آشیانہ بھی اپنی بساط کے مطابق فراہم کریگی، پریشانی یہ ہے کہ متاثرین ان علاقوں کو چھوڑکر کسی دوسری جگہ نہیں جانا چاہتے، جبکہ وہ علاقہ اب بھی ملبہ کاڈھیربناہے اور انسانوں کے رہنے کے لئے غیر محفوظ بھی ہے چنانچہ ایسی متبادل جگہوں کا جائزہ لیاجارہا ہے جہاں متاثرین کو رہنے کے لئے آمادہ کیا جاسکے۔
بھارت ایکسپریس۔