اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے 6 خواتین سمیت 50 ملزمین کی ضمانت عرضداشت منظور کر لی ہے۔
نینی تال: ہلدوانی فساد معاملے میں پولس زیادتی کے شکار50 ملزمین بشمول 6 خواتین کی ضمانت عرضداشت پرآج اترا کھنڈ ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں منظورکرتے ہوئے نچلی عدالت کوحکم دیا کہ وہ ملزمین کو ذاتی مچلکہ اورایک ضمانت دارکےعوض مشروط ضمانت پررہا کرے۔ ملزمین کی گرفتاری فروری کے دوسرے ہفتہ میں ہوئی تھی۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اورجسٹس منوج کمار تیواری نے یہ فیصلہ صادرکیا۔ گذشتہ سنیچرکوعدالت نے فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ 50 ملزمین کی جانب سے ہائی کورٹ میں کل 6 عرضداشتیں داخل کی گئی تھیں، جن پر کل سات سماعتیں عمل میں آئیں۔
عدالت نے آج اپنے زبانی فیصلے میں ملزمین کوضمانت پررہا کئے جانے کا حکم جاری کیا۔ عدالت کا تحریری فیصلہ جلد ہی فریقین کومہیا کرا یا جائے گا۔ دوران سماعت جیل میں قید پولس زیادتیوں کے شکارملزمین کوقانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئرایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کوبتایا تھا کہ تفتیشی ایجنسی نے ملزمین کی گرفتاری کے 90 دنوں کے بعد ان کے خلاف یواے پی اے (غیرقانونی سرگرمیوں کے روک تھام کا قانون) کا اطلاق کردیا تاکہ ملزمین کو ضمانت سے محروم کیا جاسکے اور تفتیشی ایجنسی کو تفتیش کرنے کے لیئے مزید وقت مل سکے۔
پولیس کو مزید وقت دینے کی مخالفت کی گئی
ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری کو سینئرایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے مزید بتایا تھا کہ سیشن عدالت نے ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت عرضداشت خارج کرتے ہوئے یہ وجہ بتائی کہ لوک سبھا انتخابات 2024 کی وجہ سے ملزمین کے خلاف وقت پرچارج شیٹ داخل نہیں کی جاسکی، لہذا پولس کو مزید وقت دینا غیرقانونی نہیں ہے۔ نتیا رام کرشنن نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ سیشن عدالت کا یہ جوازغیرآئینی ہے اورغیرواجبی ہے۔ قانون کے مطابق گرفتار شدہ ملزمین کے خلاف وقت پرچارج شیٹ داخل کرنا ضروری ہے، ورنہ ملزمین ڈیفالٹ ضمانت کے حق دار ہوں گے۔ ڈیفالٹ ضمانت کے لیئے ملزمین پر الزام کی سنگینی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اورمتعدد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات پر زوردیا ہے کہ ڈیفالٹ ضمانت ملزم کا آئینی حق ہے، جس سے اسے محروم نہیں جاسکتا ہے۔ ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن نے عدالت کوبتایا کہ ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کئے جانے کے باوجود ڈیفالٹ ضمانت کا حق ملزمین کوملتا رہے گا۔ کیونکہ اس مقدمہ میں ہائی کورٹ میں ڈیفالٹ ضمانت داخل کرنے کے بعد پولس نے سیشن عدالت میں چارج شیٹ داخل کردی ہے۔
پولیس کی زیادتی پر بھی عدالت نے اٹھایا سوال
سینئرایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے مزید بتایا تھا کہ تفتیشی ایجنسی نے 90 دنوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد عدالت میں چارج شیٹ نہیں داخل کی اور عدالت سے مزید اٹھائیس دنوں کی مہلت طلب کرلی، جو قانوناً غلط ہے، لہذا کریمنل پروسیجرکوڈ کی دفعہ 167 اور یواے پی قانون کی دفعہ 43 ڈی (2) کے تحت ملزمین کوڈیفالٹ ضمانت کے تحت جیل سے رہا کیا جانا چاہئے۔ دوران سماعت سینئرایڈوکیٹ نے عدالت کو یہ بھی بتا یا کہ پولس کی زیادتی کی انتہا ہوگئی ہے، 65 سالہ مسلم خاتون سیمیت دیگر6 خواتین کو بھی جیل کے اندر بند کرکے رکھا گیا ہے اوران کے خلاف بھی یو اے پی اے قانون کا اطلاق کیا گیا ہے۔ دورکنی بینچ نے اتراکھنڈ حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ جے ایس ورک سے سوال کیا کہ انہیں خواتین کو جیل میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ جس پرایڈوکیٹ ورک کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے تھے اورکہا تھا کہ خواتین سی سی ٹی فوٹیج میں دکھائی دے رہی ہیں۔
سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے ملزمین گلزار، رئیس احمد، محمد شاد، محمد فرید، جاوید، شریف پاچا، محمد افتخار، مزمل، ذیشان، ماجد، ریحان، احمد حسن، شاہ رخ، ارباز، ساحل انصاری، حکم رضا، عادل خان، محمد آصف، شہاب الدین، عظیم،محمد سمیر، سلیمان، ذیشان زیبو، نبی حسن، صارم مکرانی، شہزاد چھوٹا، شیراز حسین، محمد وسیم، ارباز خان، سلیم، محمد فرقان،محمد فیروز، محمد عذیر، گلزار احمد، حاضرہ بیگم، شہناز، سونی، شمشیر، سلمہ، ریشما، محمد رضوان، دانش خان، محمد شاکر، محمد عمران، حیدر، جاوید فیسڈو، فہد، سمیرنانو اوراریش کی ضمانت عرضداشتوں پر بحث کی۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کی معاونت ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سی کے شرما،ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ ستوتی رائے، ایڈوکیٹ نتین تیواری، ایڈوکیٹ وجئے پانڈے،ایدوکیٹ واصف خان، ایڈوکیٹ منیش پانڈے، ایڈوکیٹ آصف علی، ایڈوکیٹ دانش علی، ایڈوکیٹ ضمیر احمد، ایڈوکیٹ محمد عدنان ودیگر نے کی۔ہائی کورٹ میں دوران سماعت عدالت میں ملزمین کے اہل خانہ کے ہمراہ مولانا مقیم قاسمی (صدر جمعیۃ علماء ضلع نینی تال)، مولانا محمد قاسم(ناظم اعلی جمعیۃ علماء ضلع نینی تال)، مولانا محمد عاصم (شہر صدرجمعیۃ علماء ہلدوانی)، مولانا محمد سلمان(شہر ناظم جمعیۃ علماء ہلدوانی)ڈاکٹر عدنان، عبدالحسیب و دیگر موجود تھے۔
بھارت ایکسپریس–