Bharat Express

All India Muslim Personal Law Board

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خاں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’مسلم طلاق یافتہ خواتین کو عدت کے بعد نان ونفقے کی ادائیگی کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو حالیہ فیصلہ دیا ہے، اس کا ابتدائی مطالعہ کرنے سے چند اہم نکات اجاگر ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا کہ مسلم خواتین سی آرپی سی کی دفعہ 125 کے تحت اپنے سابقہ شوہرسے کفالت کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

مجلس عاملہ کے اجلاس کے دوران بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مولانا اصغرعلی امام مہدی کا نام پیش کرتے ہوئے دیگر اراکین کے سامنے اپنی رائے رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا اصغر علی امام مہدی کی خدمات گراں قدر ہیں ۔

بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلاوطن کر نے پر تلی ہو ئی ہے۔ اس نے جبروظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

بورڈ کا موقف ہے کہ شریعت میں عورت کو صرف عدت پوری ہونے تک نفقہ الاؤنس دینے کا حکم ہے، اس کے بعد عورت آزاد ہے، وہ دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر بچے عورت کے ساتھ رہتے ہیں تو ان کے اخراجات کی ادائیگی شوہر کی ذمہ داری ہے، بورڈ نے یہ بھی دلیل دی۔

میرے اشاروں کو سمجھیے، ایسے اسباب پیدا ہوگئے ہیں ،ایسی سنگین غلطیاں ہوئی ہیں ،ایسے ایسے راز فا ش ہوئے ہیں  کہ جن کے ہاتھ میں ملک نہ جائے تو ملک ترقی کرے گا، ایسی کچھ غلطیاں ،ایسی حرکتیں اور جرائم منظرعام پر آگئے ہیں کہ ملک کے عام لوگ جو عام حالات میں شاید انہیں کو ووٹ دیتے ،وہ بھی اب توبہ توبہ کررہے ہیں ۔

یونیفارم سول کوڈ جیسے ہی قانون بنے گا، ویسے ہی اسے نافذ کرنے والا اتراکھنڈ پہلا صوبہ بن جائے گا۔

وارانسی کے گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں ویاس جی کو پوجا کی اجازت دیئے جانے مسلم فریق نے سخت ناراضگی ظاہر کی ہے اورعدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ پر عدالت کے فیصلے سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بورڈ نے جمعہ کے روز منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ گیان واپی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے ہمیں صدمہ پہنچا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر ممبر مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ اس فیصلے سے مایوسی ضرور ہوئی ہے لیکن اعلیٰ عدالتوں کا راستہ ابھی بھی کھلا ہے۔ ظاہر ہے ہمارے وکلاء اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔