Bharat Express

Congress Working Committee: ہمیں سخت فیصلے لینے پڑیں گے،بڑی تبدیلیاں کرنی ہوں گی، مہاراشٹر انتخاب میں خراب مظاہرے پر ایکشن میں کانگریس صدر

کانگریس صدر نے کہا کہ حالیہ انتخابی نتائج یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہمیں ریاستوں میں اپنی انتخابی تیاریوں کو کم از کم ایک سال پہلے سے شروع کر دینا چاہیے۔ ہماری ٹیموں کو وقت سے پہلے میدان میں موجود ہونا چاہیے۔

کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے جمعہ کو کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کے اجلاس میں مہاراشٹرا اور ہریانہ انتخابات میں پارٹی کی توقع سے کم کارکردگی پر بات کی۔ انہوں نے پارٹی کارکنوں سے مقامی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی اپیل کی اور اندرونی جھگڑوں اور ای وی ایم کو مورد الزام ٹھہرایا۔ملکارجن کھرگے نے کہا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے اچھی واپسی کی۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ اس کے بعد ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں متوقع نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ کھرگے نے کہا کہ انتخابات میں ماحول ہمارے حق میں تھا، لیکن محض ماحول کا ہمارے حق میں ہونا جیت کی ضمانت نہیں ہے۔ ہمیں ماحول کو نتائج میں بدلنا سیکھنا ہوگا۔پارٹی کو خود کا جائزہ لینے اور اپنی خامیوں کو پہچاننے کی تلقین کرتے ہوئے، کھرگے نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اس ماحول سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں؟ اس دوران کھرگے نے اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر ان اہم نکات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

کھرگے نے کہا کہ  2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد، کانگریس پارٹی نے نئے جوش کے ساتھ واپسی کی تھی۔ لیکن اس کے بعد 3 ریاستوں کے انتخابی نتائج ہماری توقعات کے مطابق نہیں رہے۔کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ سب سے پہلے میں وایناڈ سے پرینکا گاندھی جی اور ناندیڑ سے رویندر وسنت راؤ چوہان کو لوک سبھا میں جیت پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ریاستوں میں کانگریس کے تمام جیتنے والے امیدواروں کو مبارکباد۔انڈیا کی پارٹیوں نے 4 میں سے 2 ریاستوں میں حکومت بنائی۔ لیکن ہماری کارکردگی توقع سے کم تھی۔ مستقبل کے حوالے سے یہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے۔ہمیں فوری طور پر انتخابی نتائج سے سبق سیکھنے اور تنظیمی سطح پر اپنی تمام کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نتائج ہمارے لیے ایک پیغام ہیں۔سب سے اہم بات جو میں بار بار کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ باہمی اتحاد کا فقدان اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات ہمیں بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب تک ہم متحد ہو کر الیکشن نہیں لڑیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بند نہیں کریں گے، ہم اپنے مخالفین کو سیاسی شکست کیسے دے سکیں گے۔

کھرگے نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم سخت نظم و ضبط پر عمل کریں۔ ہر حال میں متحد رہنا ہے۔ پارٹی کے پاس نظم و ضبط کا ہتھیار بھی ہے۔ لیکن ہم اپنے ساتھیوں کو کسی غلامی میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ اس لیے سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس پارٹی کی جیت میں ہم سب کی جیت ہوتی  ہےاور اس کی ہار میں ہم سب کی ہارہے۔ ہماری طاقت پارٹی کی مضبوطی میں ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن میں ماحول ہمارے حق میں تھا۔ لیکن محض سازگار ماحول فتح کی ضمانت نہیں دیتا۔ ہمیں ماحول کو نتائج میں بدلنا سیکھنا ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ماحول سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے؟اس لیے ہمیں سخت محنت کرنا ہوگی اور بروقت حکمت عملی بنانا ہوگی۔ ہمیں اپنی تنظیم کو بوتھ کی سطح تک مضبوط کرنا ہے۔ ووٹر لسٹ بنانے سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک ہمیں دن رات چوکنا اور ہوشیار رہنا ہوگا۔شروع سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک ہماری تیاریاں ایسی ہونی چاہئیں کہ ہمارے کارکن اور سسٹم تیزی سے کام کریں۔

کھرگے نے کہا کہ کئی ریاستوں میں ہماری تنظیم توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ ہماری سب سے بڑی ضرورت تنظیم کو مضبوط کرنا ہے۔ہم بھلے ہی الیکشن ہار گئے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بے روزگاری، مہنگائی، معاشی عدم مساوات اس ملک کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔ ذات پات کی مردم شماری بھی آج ایک اہم مسئلہ ہے۔ آئین، سماجی انصاف اور ہم آہنگی جیسے مسائل عوام کے مسائل ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم انتخابی ریاستوں میں اہم مقامی مسائل کو بھول جائیں۔ ریاستوں کے مختلف مسائل کو تفصیل سے سمجھنا اور ان کے ارد گرد ٹھوس مہم کی حکمت عملی بنانا بھی ضروری ہے۔

کانگریس صدر نے کہا کہ حالیہ انتخابی نتائج یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہمیں ریاستوں میں اپنی انتخابی تیاریوں کو کم از کم ایک سال پہلے سے شروع کر دینا چاہیے۔ ہماری ٹیموں کو وقت سے پہلے میدان میں موجود ہونا چاہیے۔ پہلا کام ووٹر لسٹوں کو چیک کرنا چاہیے تاکہ ہماری پارٹی کے لوگوں کے ووٹ ہر قیمت پر لسٹ میں رہیں۔اگلی بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم پرانے اصولوں پر چل کر ہر وقت کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کا سیاسی مخالف روزانہ کی بنیاد پر کیا کر رہا ہے۔ ہمیں وقت پر فیصلے کرنے ہوں گے۔ احتساب  کرنا ہوگا۔میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں۔ کئی بار ہم اپنے ہی بدترین دشمن بن جاتے ہیں۔ ہم خود اپنے بارے میں منفی اور مایوس کن باتیں کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے، تو میں پوچھتا ہوں کہ بیانیہ تخلیق کرنا اور اسے عوام تک پہنچانا کس کی ذمہ داری ہے؟یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ قومی سطح پر ہم نے جو بیانیہ ترتیب دیا ہے وہ اب بھی لاگو ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ ای وی ایم نے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اس لیے اس کے بارے میں جتنا کم کہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ لیکن ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔ بار بار سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یہ ذمہ داری کس حد تک پوری ہو رہی ہے۔صرف 6 ماہ قبل لوک سبھا میں ایم وی اے کے حق میں جس طرح کے نتائج آئے تھے اس کے بعد قانون ساز اسمبلی میں نتیجہ سیاسی پنڈتوں کی بھی سمجھ سے باہر ہے۔ ایسے نتائج سامنے آئے ہیں کہ حساب وکتاب کا کوئی بھی نمبر اس کا جواز پیش کرنے سے قاصر ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر حال میں الیکشن لڑنے کے طریقے  کوبہتر کرنا ہوں گے۔ کیونکہ زمانہ بدل گیا ہے۔ الیکشن لڑنے کے طریقے بدل چکے ہیں۔ ہمیں اپنے مخالفین کے مقابلے میں اپنی مائیکرو کمیونیکیشن کی حکمت عملی کو بہتر بنانا ہوگا۔ پروپیگنڈے اور غلط معلومات سے لڑنے کے لیے بھی راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ ہمیں پچھلے نتائج سے سبق لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ اعتماد کے ساتھ سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔

کانگریس صدر نے کہا کہ ہماری بار بار کی شکستوں کی وجہ سے فسطائی طاقتیں اپنی جڑیں گہری کر رہی ہیں۔ ایک ایک کر کے ریاستی اداروں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ہم آئین کی منظوری کے 75 ویں سال کا جشن منا رہے ہیں۔ ان 75 سالوں میں کانگریس پارٹی نے ہندوستان میں تاریخی کامیابیوں کے ساتھ بہت اچھا کام کیا ہے۔ آئین کی وجہ سے ہی ہمارا ملک دنیا میں سب سے آگے ہے۔اگر کسی ایک پارٹی کو آئین بنانے اور نافذ کرنے کا سب سے زیادہ کریڈٹ جاتا ہے تو وہ کانگریس ہے۔ انہوں نے ملک کے عام لوگوں کو بااختیار بنایااور حقوق دیے۔

ہمیں تقسیم کرنے والی طاقتوں کو کسی بھی قیمت پر شکست دینا ہے۔ ملک میں ترقی، امن اور بھائی چارے کو بحال کرنا ہے۔ کیونکہ ہم نے یہ شاندار ملک بنایا ہے۔ ملک کے کروڑوں عوام ہمیں اقتدار دینے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم انہیں مایوس نہیں کر سکتے۔لوک سبھا انتخابات میں حوصلہ افزا نتائج حاصل کرنے کے بعد ہمیں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں دھچکا لگا ہے۔ اس لیے ہمیں سخت فیصلے لینے پڑیں گے۔آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں شکست سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں نچلی سطح سے، بلاک، ضلع سے لے کر اے آئی سی سی تک نئے عزم کے ساتھ تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمیں وقت کے ساتھ ضروری تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ہم پہلے بھی چیلنجز پر قابو پا چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں موجودہ چیلنجز پر قابو پا کر آگے بڑھنا ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read