
سپریم کورٹ۔ (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی کیس کی سماعت سے قبل نئے قانون کی حمایت میں مسلسل درخواستیں دائر کی جارہی ہیں۔ اب قبائلی تنظیموں نے بھی سپریم کورٹ میں خود کو فریق منتخب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون قبائلیوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جئے اومکار بھلالا سماج سنگٹھن اور آدیواسی سیوا منڈل نامی تنظیموں نے یہ نئی درخواستیں داخل کی ہیں۔نئے وقف ترمیمی ایکٹ کی دفعہ3 ای کے تحت درج فہرست قبائل کے لوگوں کی زمین کو وقف جائیداد قرار دینے سے منع کیا گیا ہے۔ قبائلی تنظیمیں اسے اپنی برادری کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک اہم شق سمجھ رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئین بنانے والوں کو خاص طور پر قبائلیوں کی زمینوں کی فکر تھی۔
قبائلی تنظیموں نے کہا ہے کہ وقف ایکٹ 1995 نے وقف بورڈ کو بے قابو طاقت دی تھی۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں وقف بورڈ نے قبائلیوں کی زمین کو وقف قرار دے کر قبضہ کرلیا۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ نیا وقف ترمیمی ایکٹ قبائلی سماج کے مفادات کے تئیں مرکزی حکومت کی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے قانون کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔قابل ذکر ہے کہ کانگریس، آر جے ڈی، ایس پی، ٹی ایم سی، ڈی ایم کے، اے آئی ایم آئی ایم جیسی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علماء ہند کے صدر ارشد مدنی سمیت کئی تنظیموں اور لوگوں نے نئے وقف قانون کے خلاف درخواستیں داخل کی ہیں۔ انہوں نے نئے قانون کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی قرار دیا ہے۔ ایسی 20 سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ 16اپریل کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ اس کیس کی سماعت کرے گی۔ اس سے پہلے بھی نئے قانون کی حمایت میں درخواستیں دائر ہوتی رہتی ہیں۔ 2 قبائلی تنظیموں کے علاوہ 7 ریاستی حکومتوں نے نئے قانون کو آئینی اور منصفانہ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی افراد اور تنظیموں نے درخواستیں دائر کی ہیں کہ نیا قانون درست ہے۔ اس طرح قانون کے حق میں 14-15 درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی ایک کیویٹ داخل کرتے ہوئے اپنی طرف سے موقف پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
بھارت ایکسپریس اردو، ہندوستان میں اردوکی بڑی نیوزویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ آپ قومی، بین الاقوامی، علاقائی، اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ سے متعلق تازہ ترین خبروں اورعمدہ مواد کے لئے ہماری ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں۔ ویب سائٹ کی تمام خبریں فیس بک اورایکس (ٹوئٹر) پربھی شیئر کی جاتی ہیں۔ برائے مہربانی فیس بک (bharatexpressurdu@) اورایکس (bharatxpresurdu@) پرہمیں فالواورلائک کریں۔ بھارت ایکسپریس اردو یوٹیوب پربھی موجود ہے۔ آپ ہمارا یوٹیوب چینل (bharatexpressurdu@) سبسکرائب، لائک اور شیئر کرسکتے ہیں۔