اب منی پور میں ختم ہونا چاہئے عدم اعتماد کا بحران
مرکزی حکومت کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کا جو حشر ہوا اس میں عدم اعتماد جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ نتیجہ اتنا متوقع تھا کہ اس کی پیشن گوئی کرنے کے لیے کسی گہری سیاسی سمجھ کی نہیں، بلکہ سیاست کی معمولی جانکاری ہی کافی تھی۔ 543 رکنی لوک سبھا میں این ڈی اے کے 332 ارکان ہیں جن میں اکیلے بی جے پی کے پاس 301 ارکان ہیں۔ اپوزیشن الائنس انڈیا میں 141 ارکان ہیں۔ اس کے علاوہ اب تک انڈیا اتحاد اور این ڈی اے دونوں سے مساوی فاصلہ رکھنے والی بی آر ایس نے بھی تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ بی آر ایس سمیت تقریباً 70 ایسے ممبران پارلیمنٹ ہیں جو ان دونوں اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔ لہٰذا، اگر یہ ساری اپوزیشن مل کر بھی حکومت کے خلاف ووٹ دیتی، تب بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 210 سے کم ووٹ پڑتے۔ دوسری جانب عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے حکومت کو 272 اراکین اسمبلی کی حمایت درکار تھی اور اس سے زیادہ تو اکیلے بی جے پی کے پاس ہیں۔
یہ تو حال کی بات ہوئی۔ تاریخ پہلے ہی مرکزی حکومت کے حق میں تھی۔ یہ 28واں موقع تھا جب لوک سبھا میں اپوزیشن حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئی۔ اس طرح کی تمام سابقہ تجاویز یا تو ناکام ہو چکی ہیں یا بے نتیجہ رہی ہیں۔ 1979 میں تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے حکومت گرنے کا واحد موقع تھا جب مرارجی دیسائی حکومت کے خلاف ایک تحریک لائی گئی جس کی وجہ سے انہیں استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ حالانکہ، اس وقت بھی بحث بے نتیجہ رہی اور کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک تو نہیں لیکن خود کی طاقت ثابت کرنے کے لیے سرکار کی طرف سے لائی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے دوران ہمارے ہاں تین حکومتیں گر چکی ہیں- 1990 میں وی پی سنگھ کی حکومت، 1997 میں ایچ ڈی دیوے گوڑا کی حکومت اور 1999 میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت۔ 1998 میں اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اعتماد کی تحریک پیش کی، جسے AIADMK کی حمایت واپس لینے کی وجہ سے صرف ایک ووٹ سے شکست کا سمنا کرنا پڑا تھا۔
2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب وزیر اعظم مودی کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ 2018 میں 12 گھنٹے کی بحث کے بعد تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں صرف 126 ووٹ ڈالے گئے، جب کہ 325 اراکین پارلیمنٹ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اس بار تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ وزیر اعظم مودی کے جواب کے دوران اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی تھی۔ یعنی مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں دونوں بار اپوزیشن کو شکست ہوئی ہے۔ اس بار تحریک کے جواب میں بولتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے اپنے معروف انداز میں اپنی دو گھنٹے سے زیادہ طویل تقریر میں اپوزیشن کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کو خفیہ طاقت حاصل ہے کہ وہ کسی کا برا چاہے تو اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ اپنی پہلی مدت کار کو مثال بناتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کس طرح اس مدت کار کے دوران اپوزیشن کی طرف سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد ان کے لیے وردان ثابت ہوئی اور حکومت 2019 میں بڑے مینڈیٹ کے ساتھ واپس آئی۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ بی جے پی اب 2024 میں بھی مرکز میں اقتدار میں واپس آئے گی اور اگر اپوزیشن نے اپنے طور طریقے نہیں بدلے تو 2029 میں بھی بی جے پی کی ہی حکومت بنے گی۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے ہاتھوں ایسی بے عزتی کروانے والی تحریک عدم اعتماد لا کر انڈیا اتحاد کو کیا حاصل ہوا؟ انڈیا اتحاد اس میں اپنی اخلاقی جیت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اپوزیشن کا استدلال ہے کہ اس نے پہلے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ منی پور کے حوالے سے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں آکر بولنے پر مجبور کرے گی اور اس مطالبے پر قائم رہنے سے وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب بھی ہوئی ہے۔ اپوزیشن یہ مدعا بھی اٹھا رہی ہے کہ اس معاملے میں وزیر اعظم کی بے چینی اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ دو گھنٹے سے زیادہ کی اپنی تقریر میں منی پور کا ذکر کرنے میں ایک گھنٹہ 52 منٹ لگ گیا۔ اتنا ہی نہیں، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جس طرح نفرت انگیز ویڈیو وائرل ہونے پر پارلیمنٹ کے باہر ان کا ردعمل بہت مختصر تھا، اسی طرح وہ پارلیمنٹ کے اندر تقریر میں منی پور پر زیادہ بولنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آئے۔
ان سب کے درمیان انڈیا اتحاد کو لگ رہا ہے کہ اس سے اس کے دو مقاصد پورے ہو گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگرچہ اس کی تجویز کو شکست ہوئی لیکن اس نے اتحاد کے طور پر اس لحاظ سے کامیابی حاصل کی کہ اگر وہ متحد رہے تو قیادت کے کسی اعلان کردہ چہرے کے بغیر بھی مل کر کام کر سکتے ہیں۔ دوسرا، منی پور پر مسلسل جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اس نے ڈبل انجن والی حکومت کو کامیابی سے چلانے کی بی جے پی کی شبیہ کو تباہ کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں تشدد پر قابو پانے میں تقریباً تین ماہ کی ناکامی کے بعد منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کی ساکھ پر سوال نشان تو لگ گیا ہے۔
دوسری طرف این ڈی اے کو بھی تحریک عدم اعتماد پر جیت میں اپنا فائدہ نظر آرہا ہے۔ جیت آخر جیت ہی ہوتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر بحث کے ذریعے مرکزی حکومت راجستھان، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال اور اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں میں خواتین پر ہونے والے مظالم کو منی پور کے برابر لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ساتھ ہی اپنی تیز تقریری صلاحیتوں کے ذریعے وزیر اعظم متحد ہوتے نظر آرہے اپوزیشن کی نیت اور قابلیت پر سوال اٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پلٹ وار کا یہ سلسلہ اب 2024 کے لوک سبھا انتخابات تک جاری رہ سکتا ہے اور چونکہ اپوزیشن اب تک لوک سبھا انتخابات کے لیے لیڈر کا اعلان کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے بی جے پی ‘مودی بمقابلہ کون؟’ کے سوال کومزید بڑا کرنے کی حکمت عملی پر آگے بڑھتی نظر آسکتی ہے۔
تاہم، کئی محاذوں پر سیاسی تصورات کی اس جاری جنگ کے درمیان منی پور میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے مفاہمت اور اتفاق رائے کی راہ پر آگے بڑھنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ منی پور ایک سرحدی ریاست ہے اور یہاں جتنی دیر تک تنازعہ جاری رہے گا، اس سے نہ صرف منی پور بلکہ پورے شمال مشرق میں ہونے والی تبدیلی اور جامع ترقیاتی پہل کو نقصان پہنچے گا۔ شمال مشرق نے ماضی میں اکثر علیحدگی پسند شورشوں کا سامنا کیا ہے، لیکن موجودہ تنازعہ کی نوعیت مختلف ہے۔ میئتی اور کوکی تنازعہ کی وجہ سے نسلی تشدد بے مثال ہے۔ اس تشدد کے پڑوسی ریاستوں میں پھیلنے کا خطرہ ہے جو منی پور کے پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہی ہیں۔ میزورم ایک مثال ہے جہاں زورمتھنگا حکومت نے دھمکیوں پر فوری کارروائی کرتے ہوئے میئتی پر ممکنہ حملے کو کسی طرح ٹال دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ منی پور کے بحران کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت ذمہ داروں کا احتساب ایک واضح لائحہ عمل کے ساتھ طے کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چل رہی ‘نہ تم جیتے، نہ ہم ہارے’ کی جدوجہد کے درمیان ملک کی اصل جیت منی پور میں اعتماد کی بحالی سے ہی ہوگی۔
بھارت ایکسپریس۔