سنہری مسجد کو بچانے کے لئے جماعت اسلامی ہند نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
نئی دہلی: نئی دہلی میونسپل کونسل (این ڈی ایم سی) کے ذریعہ سنہری باغ واقع قدیم اورتاریخی سنہری مسجد کو ہٹائے جانے سے متعلق موضوع پرمسلم تنظیموں اورمسلم رہنماؤں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ عام مسلمانوں کی جانب سے بھی اس کی مخالفت کی جا رہی ہے اورمسجد کو نہیں ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اب یہ معاملہ عدالت میں بھی پہنچ گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے اس معاملے پردہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کےنائب امیرکا کہنا ہے کہ نئی دہلی میونسپل کونسل (این ڈی ایم سی) کے ذریعہ جاری ایک عوامی نوٹس نے پوری ملت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ این ڈی ایم سی کو دہلی ٹریفک پولیس کی جانب سے ایک درخواست موصول ہوئی ہے، جس میں سنہری باغ چوراہے کے آس پاس ٹریفک نظام کو بہتربنانے کے لئے سنہری مسجد (درجہ تین، ہیریٹیج بلڈنگ) کو ہٹانے کی درخواست کی گئی ہے، جس پر کارروائی کرتے ہوئے ”این ڈی ایم سی‘ یونیفائڈ بلڈنگ بائیلاز 2016 کے تحت اس مسجد کو منہدم کرنے پرغورکرنے کی بات کررہی ہے۔ ہم ایسی شاندارتاریخی وراثت کے سلسلے میں ہونے والی کاروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ مذکورہ امورکے پیش نظرجماعت اسلامی ہند نےعدالت سے رجوع کیا ہے، جس میں اس تاریخی اورمذہبی ورثے کے تحفظ کو یقینی بنانے کی گزارش کی ہے۔“
این ڈی ایم سی‘ کی کارروائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر ملک معتصم خاں نے کہا کہ ”یہ مسجد تاریخی وثقافتی حیثیت کی حامل اور دہلی کی 141 تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل ہے اوراسے ایک مذہبی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس وقت کے جامع مسجد کے امام (موجودہ امام کے دادا) کا مسلمانان ہند کی جانب سے وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا، جس میں مسجد کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی مسجد کی حفاظت کے سلسلے میں بعض دیگر معاہدے بھی موجود ہیں۔ نیزاس مسجد کے تعلق سے 18 دسمبر2023 کو دلی ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ آیا تھا، جس میں یقین دہانی کرائی گئی کہ اس مسجد کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
جماعت اسلامی ہند کا کہنا ہے کہ عدالت کی اس یقین دہانی کے باوجود اس کو توڑنے کے لئے عوامی رائے طلب کرنا غیرآئینی ہے۔ پھریہ کہ اس مسجد کا معاملہ ابھی عدالت میں زیرالتوا ہے۔ لہٰذا حتمی فیصلہ آجانے تک ’این ڈی ایم سی‘ کو مسجد کے تعلق سے اپنی باتیں عدالت میں کہنی چاہئے، نہ کہ عوام سے رائے طلب کی جائے۔ اس سے عوام میں اضطرابی کیفیت پید ا ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کونسل کا یہ عمل ’پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کے بھی خلاف ہے، جس میں تمام عبادت گاہوں کو1947 کی ہیئت پربرقراررکھنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ ان تمام حقائق کو نظرانداز کرکے ’این ڈی ایم سی‘ نے جوعوامی رائے طلب کی ہے، جماعت اسے غیرآئینی سمجھتی ہے اوراسی وجہ سے اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر یہ درخواست کی ہے کہ وہ ’این ڈی ایم سی‘ کو مسجد کے خلاف کسی بھی ایسے اقدام سے بازرہنے کی ہدایت دے“۔
ملک معتصم خاں نے کہا کہ ”مسجد سے پیدا ہونے والے ٹریفک کے مسائل پر’این ڈی ایم سی‘ کوعوام کی رائے لینے کے بجائے ماہرین سے صلاح و مشورہ لے کرمتبادل حل کے امکانات پرغورکرنا چاہئے۔ مثال کے طورپرزیر زمین ٹنل یا ہیڈ فلائی اووربناکراس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ جہاں تک ٹریفک کا معاملہ ہے تو دہلی میں ہرروزکسی نہ کسی مذہبی، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی اورکاروباری تقریبات کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے، تو کیا ان تمام سرگرمیوں کوختم کردیا جائے؟ دنیا کا کوئی بھی ملک ٹریفک اورگاڑیوں کی آمدورفت میں بہتری لانے کے لئے اپنے ورثے کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں کرتا۔ کیونکہ تاریخی وراثتیں قیمتی سرمایا ہوتی ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ سنہری مسجد، دہلی وقف بورڈ کی نگرانی اور اس کی تولیت میں ہے اوراس کی زمین پر’این ڈی ایم سی‘ کا دعویٰ جو کہ عدالت میں زیرالتوا ہے، غلط ہے۔ میڈیا رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ این ڈی ایم سی نے جو عوام سے رائے طلب کی ہے، اس سلسلے میں لوگوں کی اکثریت نے مسجد کو منہدم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ کسی تاریخی نشانی کومٹانا افسوسناک ہے۔ اگرہماری حکومت انصاف اورشفافیت پریقین رکھتی ہے تو اسے ایسے کسی بھی اقدام سے گریزکرنا چاہئے جوآئینی، تاریخی اورثقافتی شبیہ کو خراب کرے۔“
-بھارت ایکسپریس