سپریم کورٹ نے آج دہلی فسادات سازش کیس کے سلسلے میں جے این یو کے سابق اسکالر اور سماجی کارکن عمر خالد کی درخواست ضمانت کی سماعت ملتوی کرنے کے لیے وقت کی کمی کا حوالہ دیا۔عمر خالد دہلی میں فروری 2020 میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں سازش کے الزام میں، ستمبر 2020 سے، غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ یعنی یو اے پی اے کے تحت اپنے مقدمے کی سماعت کے انتظار میں، تین سال سے زیادہ عرصے سے سلاخوں کے پیچھے ہے۔جسٹس بیلا ترویدی اور دیپانکر دتا کی بنچ خالد کی اسپیشل لیو پٹیشن کی سماعت کر رہی تھی جس میں دہلی ہائی کورٹ کے گزشتہ سال ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے خالد کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہاکہ وہ ایک نوجوان طالب علم ہے، پی ایچ ڈی ہولڈر ہے، تین سال سے سلاخوں کے پیچھے ہے، اور یہ ایسے ہی چل رہا ہے۔
کپل سبل نے کہا کہ ابھی تک الزامات طے ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، آپ اسے کب تک وہاں رکھیں گے؟ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معاملہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح مخالفت کریں۔ عمر خالد نے کبھی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ بات صرف یہ ہے کہ کوئی سازش ہے،ایسی کوئی سازش نہیں جس کے تحت یہ دفعہ لگائے جائیں۔ جب بنچ نے وقت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے سماعت ملتوی کرنے کی بات کہی تو کپل سبل نے درخواست کی کہ اس معاملے کی سماعت آج ہی کی جائے۔ “میں بیس منٹ میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ کوئی معاملہ نہیں ہے۔
ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو، دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ مقدمے کی کارروائی میں تاخیر ملزمین کی طرف سے مداخلتی درخواستیں دائر کرنے کی وجہ سے ہے۔ وہ الزامات عائد کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔اے ایس جی نے مزید کہا کہ سیکشن 207 سی آر پی سی کی درخواست دو سال تک جاری رہی۔ سبل نے جواب میں کہا کہ کیس میں پانچ ضمنی چارج شیٹ داخل کی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اس معاملے میں تین شریک ملزمان (نتاشا نروال، دیونگانا کلیتا اور آصف اقبال تنہا) کو دہلی ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی ہے، جس کی سپریم کورٹ نے تصدیق کی ہے۔بالآخر، بنچ نے اس معاملے کو ملتوی کر دیا اور اس کی نئی تاریخ 1 نومبر مقرر کردی۔اور یہ ہدایت دی کہ یکم نومبر کو رجسٹری میں پہلے پانچ مقدمات میں سے ایک مقدمہ یہ ضرور ہوناچاہیے۔
بھارت ایکسپریس۔