Bharat Express

Volodymyr Zelenskyy

جمعہ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کچھ اچھا نہیں ہوا۔ واشنگٹن ڈی سی میں اوول آفس میں دونوں سربراہان مملکت کے درمیان شروع ہونے والی یہ بات چیت جلد ہی گرما گرم بحث میں بدل گئی۔

کیف میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا تھاکہ اگر میرے ایسا کرنے سے یوکرین میں امن قائم ہوتا ہے، اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ میں اپنا عہدہ چھوڑ دوں، تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔

امریکی صدر نے کہا کہ اگر جنگ چھڑنے کے وقت وہ اقتدار میں ہوتے تو وہ ایک سمجھوتے تک پہنچ سکتے تھے۔ یہ سمجھوتا یوکرین کو "تقریبا تمام اراضی پیش کر دیتا ، کسی ہلاکت یا کسی شہر کے تباہ ہوئے بغیر ... میں امن چاہتا ہوں ، میں مزید ہلاکتیں نہیں چاہتا"۔

کیف اور واشنگٹن کے درمیان فاصلے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ مسلسل روس نواز موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے منگل کے روز روس کے ساتھ جنگ ​​شروع کرنے کے لیے یوکرین کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ کیف پہلے بھی ’سمجھوتہ کر سکتا تھا‘۔

اگلے ہفتے روس کی طرف سے یوکرین پر کیے گئے مکمل فوجی حملے کو تین سال مکمل ہو جائیں گے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ماسکو کا مشرقی ڈونباس کے علاقے کے ایک بڑے حصے پر قبضہ برقرار ہے۔ روسی افواج نے حال ہی میں کوراخوف قصبے پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور شمال مشرق میں پوکروسک شہر کی جانب پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔

زیلنسکی نے کہا کہ یورپ، امریکہ اور اپنے تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر ہم اس جنگ کو منصفانہ اور دیرپا امن کے ساتھ ختم کر سکتے ہیں۔ حالانکہ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے یورپی اتحادیوں اور یوکرین کو چونکاتے ہوئے پوتن کو فون کیا اور امن مذاکرات کے فوری آغاز کا اعلان کیا۔

ہفتے کے روز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے فون پر بات چیت کی۔ جو 12 فروری کو ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مبنی تھی۔ امریکی نمائندے مائیکل میکول نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر حکام آنے والے دنوں میں سعودی عرب میں روسی اور یوکرینی مذاکرات کاروں کے ساتھ امن مذاکرات شروع کریں گے۔

صدر زیلنسکی کی تصدیق کے بعد فائر سیفٹی حکام نے بتایا کہ چرنوبل پلانٹ پر ڈرون حملے کے بعد لگنے والی آگ پر مکمل طور پر قابو پالیا گیا ہے۔ تاہم اس واقعے نے ایک بار پھر دنیا کو چرنوبل جیسے حساس مقامات پر خطرات سے آگاہ کر دیا ہے۔

رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ نے یورپ میں امریکی فوج کی موجودگی کی اہمیت کو اجاگر کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یوکرین کے تنازعہ کے حل پر امریکی اثر و رسوخ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کی حکومت کو روس کے ساتھ مبینہ کال کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ اس پر انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ قابل ذکر با ت یہ ہے کہ  یوکرائنی وزارت خارجہ نے اس کی تردید کی ہے۔