Bharat Express

Maulana Arshad Madani

مولانا ارشد مدنی نے ایک بیان میں کہا کہ جمعیۃ علماء ہند ایک صدی سے ملک میں محبت پھیلانے کا کام کر رہی ہے۔ وہ مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی بنیاد پر ریلیف اور فلاحی کام کرتی ہیں۔ کیونکہ کوئی مصیبت یا سانحہ یہ پوچھنے سے نہیں آتا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔

جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے مسلمانوں سے خاص اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ قربانی کے جانور کی کوئی تصویر سوشل میڈیا پرشیئر نہ کریں۔ 

مولانا ارشد مدنی کے مطابق "ہم پر قدغن لگائی جا رہی ہے، ووٹوں کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے، یہ بھی ایک مسئلہ ہے،اس کی وجہ سے  مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ کچھ پارٹیوں نے کہا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئیں تو اقلیتوں کو  نہیں تنگ کریں گے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں بھی اسی طرح کے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، فرقہ پرست طاقتیں اس وقت بھی مختلف بہانوں سے اکسانے اور بھڑکانے کی کوشش کر سکتی ہیں، کیونکہ لوک سبھا انتخابات ہونے والے ہیں۔

ہلدوانی جمعیۃعلماء کے صدرمولانا محمد مقیم نے وفد کو معاملہ کی تفصیلی جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ 29 جنوری کونگرنگم کی طرف سے ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں کافی تشویش پائی جارہی تھی اوربے چینی کاماحول تھا۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی مدنی نے سوال کیا کہ اگرآئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتا ہے توآئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے

وارانسی کے گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں ویاس جی کو پوجا کی اجازت دیئے جانے مسلم فریق نے سخت ناراضگی ظاہر کی ہے اورعدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کے نام سے سوشل میڈیا پرایک پیغام وائرل کیا جارہا ہے اور مسلمانوں سے بڑی اپیل کی جا رہی ہے۔ اس میں مس کال سے لے کر بینک اکاؤنٹ خالی ہونے تک کی بات کہی ہے۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے گیان واپی مسجد اور متھرا شاہی عید گاہ سے متعلق کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ہمیں مکمل یقین ہے کہ اگر ایمانداری سے سروے ہوا تو وہاں سے کچھ بھی نہیں نکلے گا، لیکن اب جس طرح یہ نیا تنازعہ کھڑا کیا گیا، وہ 1991میں عبادت گاہوں کے تحفظ پر پارلیمنٹ کے ذریعہ لائے گئے قانون کے منافی ہے۔

جج جسٹس روہت رنجن اگروال نے سماعت کے دوران کہا کہ وارانسی کی عدالت میں سال 1991 میں دائر اصل مقدمہ قابل سماعت  ہے اور یہ عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے تحت ممنوع نہیں ہے۔ عدالت نے نچلی عدالت کو ہدایت دی کہ اس کے سامنے زیر التوا کیس کی جلد سماعت کرے اور چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرے۔