جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی۔ (فائل فوٹو)
نئی دہلی: ہلدوانی فساد معاملے میں پولیس زیادتی کے شکار20 مسلم نوجوانوں کی ضمانت عرضداشتوں پر گذشتہ کل اترا کھنڈ ہائی کورٹ (نینی تال) میں سماعت ہوئی،جس دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کوبتایا کہ تفتیشی ایجنسی نے ملزمین کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے ملزمین کی گرفتاری کے 28 دنوں کے بعد ان کے خلاف یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیوں کے روک تھام کا قانون) کا اطلاق کردیا تاکہ ملزمین کو ضمانت سے محروم کیا جاسکے اور تفتیشی ایجنسی کو تفتیش کرنے کے لیئے مزید وقت مل سکے۔
ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اور جسٹس منوج کمار تیواری کو سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بتایا کہ سیشن عدالت نے ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت عرضداشت خارج کرتے ہوئے یہ وجہ بتائی کہ لوک سبھا انتخابات کی وجہ سے ملزمین کے خلاف وقت پر چارج شیٹ داخل نہیں کی جاسکی، لہذا پولس کو مزید وقت دینا غیر قانونی نہیں ہے۔ نتیا رام کرشنن نے عدالت کو مزید بتایا کہ سیشن عدالت کا یہ جواز غیر آئینی ہے اور غیرواجبی ہے۔ قانون کے مطابق گرفتار شدہ ملزمین کے خلاف وقت پر چارج شیٹ داخل کرنا ضروری ہے ورنہ ملزمین ڈیفالٹ ضمانت کے حق دار ہونگے۔ڈیفالٹ ضمانت کے لیے ملزمین پر الزام کی سنگینی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ اور متعدد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈیفالٹ ضمانت ملزم کا آئینی حق ہے جس سے محروم نہیں جاسکتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے دلیلیں پیش کیں
ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کئے جانے کے باوجود ڈیفالٹ ضمانت کا حق ملزمین کوملتا رہے گا۔ کیونکہ اس مقدمہ میں ہائی کورٹ میں ڈیفالٹ ضمانت داخل کرنے کے بعد پولیس نے سیشن عدالت میں چارج شیٹ داخل کردی ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے مزید بتایا کہ تفتیشی ایجنسی نے 90 دنوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد عدالت میں چارج شیٹ نہیں داخل کی اور ملزمین اور ان کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر عدالت سے مزید اٹھائیس دنوں کی مہلت طلب کرلی جو قانوناً غلط ہے۔ لہذا کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 167 اور یو اے پی اے قانون کی دفعہ 43D(2) کے تحت ملزمین کو ڈیفالٹ ضمانت کے تحت جیل سے رہا کیا جانا چاہئے۔ دوران سماعت سینئر ایڈوکیٹ نے عدالت کو مزید بتا یا کہ پولیس کی زیادتی کی انتہا ہوگئی ہے، 65؍ سالہ مسلم خاتون سیمیت دیگر7؍ خواتین کو بھی جیل کے اندر بند کرکے رکھا گیا ہے اوران کے خلاف بھی یو اے پی اے قانون کا اطلاق کیا گیا ہے۔ نتیا راما کرشنن نے عدالت سے ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت پر رہائی کی عرضداشت پر جلد از جلد سماعت کئے جانے کی گذارش کی، جس پرعدالت نے سرکاری وکیل کو حکم دیا کہ وہ مقدمہ کی اگلی سماعت پر بحث کریں۔
مولانا ارشد مدنی نے کیا اطمینان کا اظہار
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بحث کے آغاز پر اطمینان اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وکلاء نے آج بہت جامع اور مدلل بحث کی ہے۔ انہوں نےعدالت کو یہ قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مقدمے میں پولیس نے قانونی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملزمین کے ساتھ امتیازی رویہ اپنایاہے، تا کہ ان کی فوری ضمانت کا امکان نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ 90 دن کی مدت گزرجانے کے بعد چارج شیٹ نہ داخل کرنا یہ بتاتا ہے کہ پولیس اور تفتیشی ایجنسی نے قانون و انصاف کی جگہ صریح جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے،انہوں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ ملزمین اور ان کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر عدالت سے مزید 28 دنوں کی مہلت طلب کرلی گئی تھی اوراب الیکشن کا بہانا بنایا جارہا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے، مسلمانوں سے جڑے اکثر معاملات میں کچھ اسی طرح کا طرز عمل اپنایا جاتا ہے،مقررہ مدت گزر جاتی ہے اور چارج شیٹ داخل نہیں کی جاتی۔ اس کی وجہ سے ملزمین کی ضمانت میں تاخیر ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ تاکہ ملزمین اپنی ضمانت کے لئے قانونی چارہ جوئی نہ کرسکے۔انہوں نے اس بات پرسخت افسوس کا اظہار کیا کہ ملزمین میں 65 سالہ مسلم خاتون سمیت سات عدد خواتین بھی ہیں،ان پر بھی یواے پی اے قانون کا اطلاق کردیا گیا ہے۔یہ پولیس کی بے رحمی اور اس کے تعصب کا کھلا ثبوت ہے۔ دوسری جانب پولس کی بلاجواز فائرنگ سے سات بے گناہ افراد مارے گئے۔ ان کے بارے میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا، گویا پولیس اور حکومت دونوں کی نظر میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت ہی نہیں، حالانکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے جڑا ہوا ایک سنگین معاملہ ہے، اور اس پر انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد اور اداروں کی خاموشی بھی ایک بڑا سوال ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی گزارش پر سپریم کورٹ کی سینئر ایڈوکیٹ نیتا راما کرشنن نے نینی تال جاکر بحث کی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی تمام گرفتارشدگان کی رہائی کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔
کانوڑ روٹ پر عدالت کے فیصلے کا کیا خیرمقدم
کانوڑ روٹ پر واقع دکانوں، ہوٹلوں اورڈھابوں پر مالکان کا نام لکھنے کے ریاستی حکومتوں کے حکم پر سپریم کورٹ کے ذریعہ روک لگائے جانے کے تعلق سے مولانا مدنی نے کہا کہ ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ عدالت کا یہ فیصلہ نفرت پر سیکولرزم، جمہوریت اور محبت کی جیت ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ ہلداوانی معاملے میں بھی اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے ہمیں جلد انصاف ملے گا۔سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے ملزمین گلزار سردار احمد، رئیس احمدعبدالحمید، محمد شاد رئیس احمد، محمد فرید عبدالحمید ، جاوید عبدالحمید، شریف عبدالرضا، محمد استقا ر محمد الطاف، مزمل محمد خلیل،ذیشان حافظ شکیل احمد،ماجد ملک،ریحان اشفاق، احمد حسن مہدی حسن،شاہ رخ محبوب، ارباز عرفان، ساحل انصاری مطلوب انصاری،حکوم رضا واحد رضا، آدی خان پرویز خان،محمد آصف محمدیوسف، شہاب الدین محمد یعقوب، عظیم محمد حسین کی ضمانت عرضداستوں پر بحث کی جبکہ 13؍ اگست کو بقیہ تیس ملزمین کی ضمانت عرضداشت پر بحث کی جائے گی۔ ہائی کورٹ میں ابتک دو ایف آئی آر میں گرفتار 50؍ ملزمین کی ضمانت عرضداشت داخل کی جاچکی ہے ۔ عدالت نے تمام عرضداشتوں کو سماعت کے لیئے قبول کرلیا ہے۔
دو رکنی بینچ نے ڈپوٹی ایڈوکیٹ جنرل جے ایس ورک کو حکم دیا کہ وہ 13؍ اگست کو سماعت کے لیئے تیار رہیں ، دفاعی وکیل کی بحث کے بعد ان کے اعتراض پر عدالت سماعت کریگی۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کے ہمراہ ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ ستوتی رائے، ایڈوکیٹ نتین تیواری، ایڈوکیٹ وجئے پانڈے، ایڈوکیٹ آصف علی، ایڈوکیٹ دانش علی، ایڈوکیٹ ضمیر احمد، ایڈوکیٹ محمد عدنان ، ایڈوکیٹ سی کے شرما و دیگر پیش ہوئے ۔ دوران سماعت عدالت میں ملزمین کے اہل خانہ کے ہمراہ مولانا مقیم قاسمی (صدر جمعیۃ علماء ضلع نینی تال)، مولانا محمد قاسم(ناظم اعلی جمعیۃ علماء ضلع نینی تال)، مولانا محمد عاصم (شہر صدرجمعیۃ علماء ہلدوانی)، مولانا محمد سلمان(شہر ناظم جمعیۃ علماء ہلدوانی)ڈاکٹر عدنان ، عبدالحسیب کو دیگر موجود تھے۔
بھارت ایکسپریس–